Maktaba Wahhabi

187 - 548
منجانب اللہ جو ہونا ہو وہ ہوجائے۔[1] صحیح روایتوں میں ہے کہ جس دن عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر میں شہید کیا گیا اس دن اس گھر سے حسن رضی اللہ عنہ کو زخمی حالت میں لے جایا گیا۔[2] اسی طرح حسن رضی اللہ عنہ کے علاوہ عبداللہ بن زبیر، محمد بن حاطب، مروان بن حکم رضی اللہ عنہم بھی زخمی ہوئے، ان کے ساتھ حسین بن علی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم تھے۔[3] علی رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب سے سب سے زیادہ دفاع کرنے والوں میں سے تھے، مروان بن حکم نے اس کی شہادت دی ہے۔[4]ابن عساکر نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو نقل کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو کہلا بھیجا: میرے پاس پانچ سو زرہ پوش ہیں، آپ مجھے اجازت دیں میں لوگوں سے آپ کو بچاؤں گا، آپ نے کوئی ایسا کام انجام نہیں دیا ہے جس سے آپ کا خون حلال ہو جائے، تو آپ نے فرمایا: اللہ آپ کا بھلا کرے، مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے سبب کوئی خون بہے۔[5] متعدد روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اثنائے محاصرہ میں آپ عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ متعاون رہے، انھی روایتوں میں سے یہ ہے کہ باغی عثمان رضی اللہ عنہ تک پانی نہیں پہنچنے دیتے تھے، قریب تھا کہ آپ کے اہل و عیال پیاس سے مر جائیں، علی رضی اللہ عنہ نے آپ کے پاس تین مشکیزے پانی بھیجا جو بہ مشکل آپ تک پہنچا، اس کے پہنچانے میں بنوہاشم اور بنوامیہ کے چند غلام زخمی ہوگئے۔[6] حالات تیزی سے بدلتے رہے، شورش کرنے والے عثمان رضی اللہ عنہ پر چڑھ دوڑے اور آپ کو قتل کردیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب کہ ان کی اکثریت مسجد میں تھی یہ جان کاہ خبر پہنچی تو ان کے ہوش ٹھکانے نہ رہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں سے کہا: عثمان رضی اللہ عنہ کیسے قتل کردیے گئے جب کہ تم دروازے پر تھے؟ حسن رضی اللہ عنہ کو تھپڑ رسید کیا جب کہ وہ زخمی تھے، [7] حسین رضی اللہ عنہ کو سینے پر مارا، ابن زبیر و ابن طلحہ رضی اللہ عنہما کو سخت سست کہا اورناراض ہو کر یہ کہتے ہوئے اپنے گھر چلے گئے: [8]
Flag Counter