Maktaba Wahhabi

144 - 548
دونوں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے والد تھے- ہدایا اور تحائف کو قبول کرتے تھے، جیسا کہ باہمی محبت کرنے والوں کی عادت ہوتی ہے، چنانچہ معرکۂ ’’عین التمر‘‘ میں ہاتھ آنے والی ’’صہباء‘‘ نامی لونڈی کو آپ نے قبول کیا، جن کے بطن سے آپ کی اولاد میں سے عمر و رقیہ ہیں۔[1] اسی طرح جنگ یمامہ میں قید ہونے والی خولہ بنت جعفر بن قیس کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کے حوالے کردیا، انھی کے بطن سے محمد بن حنفیہ پیدا ہوئے، جو حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے بعد آپ کی اولاد میں سب سے افضل ہیں۔ خولہ مرتدین کے قیدیوں میں سے تھیں۔ محمد انھی کے ذریعے سے جانے جاتے ہیں اور انھیں کی طرف منسوب ہو کر محمد بن حنفیہ کہلاتے ہیں۔[2] ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیعت کے بارے میں امام جوینی کہتے ہیں: تمام کے تمام صحابہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اطاعت کو قبول کرلیا، علی رضی اللہ عنہ آپ کے حکم کو بجا لانے والے تھے، آپ نے بھری مجلس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور غزوۂ بنوحنیفہ کے لیے چل پڑے۔[3] بہت ساری روایات میں وارد ہے کہ آپ نے اور آپ کی اولاد نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جانب سے مالی ہدایا، خمس اور اموال فے کو قبول کیاہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی آپ کے عہد خلافت میں خمس اور فے کے ذمہ دار اور بانٹنے والے تھے، یہ اموال انھی کے ہاتھوں میں تھے، پھر حسن، حسین، حسن بن حسن اور زید بن حسن رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں میں منتقل ہوتے رہے۔[4] حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے پانچوں نمازیں ادا کرتے تھے، آپ کی امامت پر راضی تھے، لوگوں کے سامنے آپ کے ساتھ اپنی ہم آہنگی کا اظہار کرتے تھے۔ [5] اپنے والد اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کے مابین اس طرح کے تعلقات کو حسن بن علی رضی اللہ عنہما جانتے تھے، ساتھ ہی ساتھ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کے مابین ازدواجی رشتے بھی قائم ہوئے، اہل بیت نے اپنوں میں سے بعض کا نام ابوبکر رکھا، خلیفۂ راشد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اہل بیت کے ساتھ ان کے شایانِ شان دوستانہ اور عزت و احترام پر مبنی تعلقات تھے، یہ تعلقات دو طرفہ تھے، اور اتنے مضبوط تھے کہ قصہ گو حضرات جتنے بھی جھوٹے قصے اور کہانیاں گھڑلیں ان میں دوری اور اختلاف کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔چنانچہ عائشہ صدیقہ بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما
Flag Counter