Maktaba Wahhabi

90 - 548
انھیں اپنے پیچھے سوار کرلیا، تو ہم تینوں مدینہ میں ایک سواری پر داخل ہوئے۔[1] و:…چھٹی بنیاد: بچوں کی خبرگیری اور ان کے احول کی پرسش: اکثر و بیشتر بچے اکیلے چلتے ہوئے راستہ بھول کر بھٹکتے رہتے ہیں، والدین اگر بچوں کا خاص خیال رکھتے ہوں تو وہ جلد ہی بچوں کے گم ہونے سے باخبر ہوجاتے ہیں، جلد ہی تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں، اور پتہ لگا لیتے ہیں اور اس کے برعکس صورت حال میں نتیجہ بھی برعکس ہوتا ہے، تلاش کرنے میں جلدی کا بچوں کی نفسیات پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے، اس سلسلے میں تاخیر اس کے ڈر، تکلیف اور رونے میں زیادتی کا سبب ہوتی ہے، جیسے جیسے والدین میں سے کسی ایک کے پہنچنے میں تاخیر زیادہ ہوتی ہے اس کی نفسیاتی تکلیف بھی زیادہ ہوتی ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی کرتے اور اپنے صحابہ کو تعاون کرنے اور گلیوں میں منتشر ہوجانے کا حکم دیتے، تاکہ حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما کا پتہ چلایا جاسکے۔[2] امام طبرانی نے سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی ہے، کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، ام ایمن رضی اللہ عنہا آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول ! حسن و حسین گم ہوگئے ہیں۔ راوی حدیث کہتے ہیں یہ صبح کا وقت تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چلو میرے لاڈلوں کو تلاش کرو، ہر شخص کسی نہ کسی جانب نکل پڑا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب نکل پڑا، تھوڑی ہی دیر میں ایک پہاڑ کے دامن میں حسن و حسین رضی اللہ عنہما ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے پائے گئے۔ ایک زہریلا سانپ اپنی دُم پرکھڑا تھا، اس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جانپ لپکے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتے ہوئے پلٹا اور بھاگ کر کسی بل میں گھس گیا، پھر آپ ان دونوں کے پاس آئے، انھیں ایک دوسرے سے الگ کیا، ان کے چہروں پر ہاتھ پھیرا او رکہا: (( بِأَبِیْ وَ أُمِّيْ أَنْتُمَا مَا أَکْرَکُمَا عَلَی اللّٰہِ۔)) ’’تم دونوں پر میرے ماں باپ قربان ہوں، تم دونو ں اللہ کے نزدیک کیا ہی معزز ہو۔‘‘ پھر آپ نے ان میں ایک کو داہنے کندھے پر اور دوسرے کو بائیں کندھے پر اٹھالیا، میں نے کہا: تم دونوں کو مبارک ہو، تمھاری سواری کیا ہی خوب سواری ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور وہ دونوں کیا ہی اچھے سوار ہونے والے ہیں، اور ان کے والد ان سے بھی اچھے ہیں۔[3]
Flag Counter