ان کی وفات تین رمضان ۱۱ھ کو منگل کی رات میں ہوئی، علی بن حسین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہتے ہیں: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال مغرب و عشاء کے مابین ہوا، ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی، زبیر اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم آئے، جب ان کے جنازے کو نماز کے لیے رکھا گیا، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوبکر صدیق آگے بڑھیے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اور آپ اے ابوالحسن؟ کہا: ہاں اللہ کی قسم، آپ کے علاوہ کوئی دوسرا ان کے جنازے کی نماز نہیں پڑھائے گا، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے جنازے کی نماز پڑھائی، انھیں رات میں دفن کیا گیا، ایک دوسری روایت میں وارد ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جنازے کی نماز پڑھائی اور چار مرتبہ اللہ اکبر کہا۔ [1] صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق جنازے کی نماز حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور یہی راجح روایت ہے۔ [2] بعض شیعی کتابوں میں پائی جانے والی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی یہ وصیت کہ ایسے لوگ جنھوں نے ان کے اور ان کے والد کے دشمن ہونے کے باعث ان پر ظلم کیااور ان کا حق نہیں دیا وہ ان کی قبر پر نہ جائیں، سراسر باطل ہے، یہ روایتیں صحیح نہیں بلکہ موضوع ومن گھڑت ہیں جیسا کہ ’’حیاۃ الامام الحسن بن علی رضی اللہ عنہما ‘‘ کے مؤلف نے ذکر کیا ہے۔ [3] |
Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
Volume | |
Number of Pages | 548 |
Introduction |