Maktaba Wahhabi

75 - 548
ہوں، اور شرم کے مارے مطالبہ نہیں کیا، لوٹ گئیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے کیا کیا؟ انھوں نے کہا: مارے شرم کے میں مطالبہ نہ کرسکی، چنانچہ ہم دونوں آئے، حضرت علی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم پانی مہیا کرتے کرتے میرا سینہ درد کرنے لگا ہے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: چکی پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں گٹے پڑ گئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ تک غلام اور لونڈیوں کو پہنچایا ہے اور فراخی عطا کی ہے، اس لیے آپ ہمیں ایک خادمہ دے دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اصحاب صفہ کوبھوکا چھوڑ کر میں تمھیں خادمہ نہیں دے سکتا، میرے پاس ان کے لیے اخراجات نہیں ہیں، میں انھیں بیچوں گا اور ان کی قیمت ان پر خرچ کروں گا، دونوں لوٹ آئے، پھر ان دونوں کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، دونوں اپنی چادر میں تھے، جب سر ڈھانپتے تو پاؤں کھل جاتے، پاؤں ڈھانپتے تو سر کھل جاتا، آپ کی تشریف آوری کے باعث تیزی سے نکل جانے کے لیے کھڑے ہوئے، آپ نے فرمایا : ٹھہرو، پھر فرمایا: کیا میں تمھیں اس سے اچھی چیز نہ بتلا دوں جس کا تم نے مطالبہ کیاہے، دونوں نے کہا: ضرور بتلائیے آپ نے فرمایا: چند کلمات ہیں جنھیں جبریل علیہ السلام نے مجھے سکھلایا، تم دونوں ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللّٰہ ، دس مرتبہ الحمد للّٰہ، دس مرتبہ اللّٰہ اکبر کہو، اور جب اپنے بستر پر لیٹو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللّٰہ، تینتیس مرتبہ الحمد للّٰہ ، چونتیس مرتبہ اللّٰہ اکبر کہو۔[1] اس واقعے میں اخلاقی قدروں کا نمایا ں پہلو یہ ہے کہ یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اپنی حکومت کو لاحق اقتصادی مشکل کو کس طرح حل کیا، آپ نے امور کی ترتیب اولویت کی بنیاد پر دی۔ اصحاب صفہ کی بھوک دور کرنا سخت ضروری تھا، حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کے لیے خادمہ کی ضرورت اصحاب صفہ کی ضرورت جیسی نہیں تھی، بنا بریں آپ نے اصحاب صفہ کو ترجیح دی، اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت سارے وسائل تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اس نبوی تربیت کا اچھا خاصا اثر تھا، ایک زمانہ گزرنے کے بعد آپ خلیفۃ المسلمین ہوگئے، چنانچہ اسی نبوی تربیت کا نتیجہ تھا کہ زمین کے تمام خزانے آپ کے ہاتھ میں تھے، پھر بھی آپ کو دنیا اور اس کی چمک دمک سے کوئی رغبت نہیں تھی، وجہ یہ تھی کہ آپ کا دل و دماغ ذکر الٰہی سے معمور تھا۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ تعلیم پر برابر عمل کیا، اس کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اللہ کی قسم میں نے ان کلمات کواس وقت سے ترک نہیں کیا جب سے آپ نے مجھے سکھایا، آپ کے ساتھیوں میں سے ایک نے پوچھا: صفین کی رات بھی ترک نہیں کیا، آپ نے فرمایا: صفین کی رات بھی نہیں۔‘‘[2]
Flag Counter