Maktaba Wahhabi

63 - 548
ذکرت زینب لما ورکت إرما فقلت، سقیا لشخص یسکن الحرما ’’جب میں منزل کاپتہ دینے والے پتھروں پر لیٹا تو مجھے زینب کی یاد آئی اور میں نے کہا: حرم میں رہنے والی۔‘‘ بنت الأمین جزاہا اللّٰه صالحۃ و کل بعل سیثني بالذي علما[1] ’’امین وحی کی نیک بچی کو اللہ سیراب کرے، انھیں جزائے خیر دے، ہر شوہر وہی تعریف کرتا ہے جسے وہ جانتا ہے۔‘‘ ا…حضرت زینب رضی اللہ عنہا کي اپنے شوہر سے وفاداري:…جس طرح ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ اپنی بیوی حضرت زینب کی وفادار تھے، وہ بھی ایسے ہی تھیں، ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے مکہ میں اسلام لانے سے انکار کردیا وہ اسلام لانے کے باوجود اپنے شوہر ہی کے ساتھ رہیں، جب معرکۂ بدر پیش آیا تو ابوالعاص رضی اللہ عنہ کفار قریش کے ساتھ لڑنے گئے، قیدیوں کے ساتھ قید کرلیے گئے۔ جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کے فدیہ میں مال بھیجا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بھی ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے فدیہ میں مال بھیجا، جس میں ان کا وہ ہار تھا جسے حضرت خدیجہ نے انھیں دے کر ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ شادی کے موقع پر رخصت کیا تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو آبدیدہ ہوگئے اور مسلمانوں سے کہا: ((إِنْ رَأَیْتُمْ أَنْ تُطْلِقُوْا لَہَا أَسِیْرَہَا وَتَرُدُّوْا عَلَیْہَا مَا لَہَا فَافْعَلُوْا۔)) ’’اگر تمھاری رائے ہو کہ تم ان کے قیدی کو آزاد کردو اور ان کا مال واپس کردو تو ایسا کرو۔‘‘ تو لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے اے اللہ کے رسول ! لوگوں نے انھیں آزاد کردیا اور ان کا مال واپس کردیا۔[2] ہمارے لیے مناسب ہے کہ ہم ابوالعاص رضی اللہ عنہ کی اپنے ساتھیوں کے ساتھ گفتگو کے مفہوم پر غور کریں، اس کی بہترین عبارت اور معیاری ادب کو دیکھیں تاکہ ہم اسے اپنی زندگی میں اپنا سکیں۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا مکہ میں بے دست و پا عورتوں میں سے تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوہر سے خفیہ عہد لے لیا تھا کہ وہ حضرت زینب کو ان کے پاس جانے دیں گے، چنانچہ انھوں نے اس عہد کو پورا کرتے ہوئے زینب کو جانے دیا، وہ مدینہ کے راستے میں سخت آزمائش سے دوچار ہوئیں۔[3]
Flag Counter