Maktaba Wahhabi

521 - 548
آدمیوں عبدالرحمن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز رضی اللہ عنہما کوبھیجا اور کہا: تم دونوں ان کے پاس جاؤ، بات چیت کرو، کچھ ان کے مطالبات کو مان لینے اور اپنے کچھ مطالبات منوانے کی بات کرو۔[1] ا: عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ جیسا مشہور فوجی جرنیل، تجربہ کار سیاست دان اور لڑائیوں کا طویل تجربہ رکھنے والا کہہ رہا ہے: میرے خیال میں یہ فوجی دستے اپنے مقابل فوجیوں کا کام تمام کرکے ہی لوٹیں گے۔ ب: فوجی صورت حال کا جائزہ معاویہ رضی اللہ عنہ اس طرح پیش کرتے ہیں: بغیر دونوں فریقوں کے زبردست نقصانات کے کسی فریق کو فتح اور فوجی بالادستی نہیں مل سکتی، معاویہ رضی اللہ عنہ ہی اگرچہ فتح مند ہوتے پھر بھی وہ اچھے مسلمانوں کے قتل، یتیموں، بیواؤں اور امت اسلامیہ کے لیے بڑی بڑی اخلاقی، اقتصادی، سیاسی اور اجتماعی خرابیوں کی شکل میں جنگ کے نتائج کو برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ ج: اسی لیے معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسلامی معاشرے میں اثر و رسوخ رکھنے والے اور حسن رضی اللہ عنہ کے نزدیک محترم صحابہ کرام میں سے دو عظیم شخصیتوں کا انتخاب فرمایا، دونوں قریش کے تھے۔ ٭ ایک عبدالرحمن بن سمرہ بن حبیب بن ربیعہ بن عبدشمس بن عبدمناف، ابوسعید قرشی رضی اللہ عنہ تھے، آپ فتح مکہ کے دن مشرف بہ اسلام ہوئے، آپ اشراف میں سے تھے، بصرہ میں قیام کیا، جنگ سجستان میں شریک ہوئے۔[2] وہی ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا: ((یَا عَبْدَالرَّحْمٰنِ لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَۃَ فَإِنَّکَ إِنْ أُعْطِیْتَہَا مِنْ غَیْرِ مَسْاَلَۃٍ أُعِنْتَ عَلَیْہَا، وَ إِنْ أُعْطِیْتَہَا عَنْ مَسْاَلَۃٍ وُکِّلْتَ إِلَیْہَا۔)) [3] ’’اے عبدالرحمن! امارت کا مطالبہ مت کرو، اگر بغیر مطالبے کے امارت تمھیں دی گئی تو الٰہی مدد تمھیں ملے گی اور اگر مطالبے پر ملی تو تنہا تمھارے حوالے کردی جائے گی (یعنی الٰہی مدد نہیں ملے گی)۔‘‘ مسند بقی بن مخلد میں ان کی روایت کردہ چودہ حدیثیں ہیں، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما ، سعید بن مسیب، عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ، حبان بن عمیر، ابن سیرین، حسن، ان کے بھائی سعید بن ابوالحسن اورحمید بن ہلال وغیرہم نے روایت کی ہے۔ ایک روایت کے مطابق ان کا نام عبدکلال تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عبدالرحمن سے بدل دیا۔[4] آپ کی وفات بصرہ میں ۵۰ھ میں ہوئی، دوسری روایت کے مطابق ۵۱ھ میں۔[5]
Flag Counter