Maktaba Wahhabi

52 - 548
طرح کی روایتوں کو جانچیں اور پرکھیں، تاکہ کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرسکیں اور امت کے لیے اپنی ایک عظیم خدمت کو پیش کرسکیں۔ اور ان لوگوں کی طرح گڑھے میں نہ گریں جو ضعیف اور موضوع روایات پر اعتماد کرنے کی وجہ سے گڑھے میں گرے۔ ۳۔ان روایتوں کے موضوع اور من گھڑت ہونے کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی جب وفات ہوئی تو بہت ساری عورتیں ننگے پیر، کھلے سر آپ کے جنازے کے پیچھے نکل پڑیں، اور کہہ رہی تھیں: ہم سب حسن رضی اللہ عنہ کی بیویاں ہیں۔ اس روایت کا موضوع اورمن گھڑت ہونا واضح ہے۔ عورتوں کے اس مجمع کے ننگے پاؤں، کھلے سر ، لوگوں کے سامنے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بیویاں ہونے کا اعلان کرتے ہوئے نکلنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر ان کے نکلنے کی وجہ رنج و غم کا اظہار تھا تو اس اعلان اور مردوں کے شانہ بہ شانہ بھیڑ میں چلنے کی وجہ کیا تھی؟ جب کہ عورتوں کو حجاب اور گھر سے بے پردہ نہ نکلنے کا حکم دیا گیا ہے، یہ اور اس جیسے دوسرے آثار سند کے اعتبار سے صحیح اور ثابت نہیں ہیں۔ گزشتہ روایتوں کے مشابہ یہ روایت بھی ہے جس کو محمد بن سیرین نے روایت کیاہے کہ حصرت حسن رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے شادی کی، تو ان کے پاس بطور مہر سو لونڈیوں کو بھیجا، اور ہر لونڈی کے ساتھ ایک ہزار درہم بھی تھا۔[1] یہ بات بعید از قیاس ہے کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما اپنی ایک بیوی کو بطور مہر اتنا زیادہ مال دے دیں، یہ اسراف و فضول خرچی ہے جس سے اسلام میں منع کیا گیا ہے، اور مسنون مہر پر اکتفا کرنے کا حکم دیا گیاہے، اس کا مقصد شادی کو آسان بنانا ہے، اور یہ کہ لوگوں کو اس سے متعلق پریشانی اور تنگی نہ لاحق ہو۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سنت کے خلاف نہیں کرسکتے، اور نہ آپ کی شریعت کے منافی کوئی راہ اپنا سکتے ہیں، یہ اور اس طرح کی روایتیں موضوع و من گھڑت ہیں اور بیویوں کی کثرت کے موضوع اور من گھڑت ہونے کی تائید کرتی ہیں۔ بہرحال مذکورہ روایتوں کے علاوہ کوئی ایسی صحیح دلیل نہیں ملتی جو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بیویوں کی از حد کثرت کو ثابت کرے، مذکورہ روایتیں تنقید سے خالی نہیں ہیں اس لیے وہ اثبات کی دلیل نہیں ہوسکتیں۔[2] اس چیز کو جاننے کے لیے کہ دشمنان اسلام ضعیف و باطل روایات سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں، حضرت
Flag Counter