Maktaba Wahhabi

502 - 548
۱۔ معاویہ رضی اللہ عنہ بذات خود علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا نہیں کہتے تھے تو دوسرے کو اس کا حکم کیسے دیں گے، بلکہ وہ تو ان کی تعظیم کرتے تھے، ان کی فضیلت اور اسلام میں سبقت کا اعتراف کرتے تھے، جیسا کہ ان کے اقوال ان چیزوں پر دلالت کرتے ہیں۔ ا:…ابن کثیر کا قول ہے: کئی طرق سے یہ بات وارد ہے کہ ابو مسلم خولانی اور ان کے ساتھ کچھ اور لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے کہا: آپ علی رضی اللہ عنہ سے لڑتے ہی ہیں یا آپ ان کے جیسے ہیں ؟ جواب دیا: اللہ کی قسم میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ مجھ سے بہتر اور افضل ہیں، اور خلافت کے مجھ سے زیادہ حقدار ہیں۔[1] ب:…نیز ابن کثیر رحمہ اللہ نے جریر بن عبدالحمید کی روایت نقل کی جسے وہ مغیرہ سے روایت کرتے ہیں کہتے ہیں: علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر جب معاویہ رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو رونے لگے، اس پر ان کی بیوی نے کہا: آپ ان پر رو رہے ہیں جب کہ آپ نے ان سے جنگ کی ہے؟ کہا: تیرا ستیاناس ہو، تجھے معلوم نہیں کہ لوگوں نے کس فضل، فقہ اور علم کو کھو دیا ہے۔[2]تو کیا کوئی صاحبِ عقل و دین اس بات کو قبول کرے گا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہیں، بلکہ لوگوں کو اس پر ابھاریں جب کہ وہ ان کے بارے میں اس طرح کا اعتقاد رکھتے ہوں۔[3] ۲۔ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو ان کی زندگی میں اور ان سے برسرپیکار رہتے ہوئے برا بھلا کہا ہو، تو کیا یہ بات معقول ہے کہ لڑائی ختم ہوجانے اور ان کی وفات پاجانے کے بعد ان کو برا بھلا کہیں گے، یہ عقلاء کے نزدیک بہت ناممکن ہے اور اس سے زیادہ ناممکن یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ان کے سبّ و شتم پر ابھاریں۔ ۳۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نہایت ہوشیار اور عقلمندی اور زیرکی میں مشہور تھے۔ اگر وہ لوگوں کو علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے پر ابھارنا ہی چاہتے تو کیا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جیسے شخص سے اس کا مطالبہ کرتے جب کہ وہ نہایت بہادر، صاحب فضل اور پرہیزگار تھے، فتنے میں بالکل شامل ہی نہیں تھے، یہ تو معمولی عقل و خرد والا شخص بھی نہیں کرتا چہ جائے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کریں۔ ۴۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی دست برداری کے بعد تنہا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پوری خلافت رہی، آپ کا اتفاق ہوگیا، تمام علاقوں پر انھی کی بادشاہت ہوگئی، تو علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے میں ان کا کیا فائدہ تھا، بلکہ حکمت اور حسن سیاست کا تقاضا تھا کہ ایسا نہ کیا جائے، اس لیے کہ اس سے لوگ پر سکون ہوں گے، معاملات سلجھیں گے، اس طرح کی باتیں معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے شخص پر مخفی نہیں رہ سکتیں، جن کے حسنِ سیاست و تدبر کی
Flag Counter