Maktaba Wahhabi

494 - 548
کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی فوج چھوڑ کر یمن کی جانب کوچ کر گئے تھے۔[1] فوج کے قائد عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، یا عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما یا کوئی دوسرے رہے ہوں، معاویہ رضی اللہ عنہ سے حسن رضی اللہ عنہ کی فوج کے قائد کے ربط قائم کرنے اور ان سے امان طلب کرنے کے اسباب موجود نہیں تھے، بخاری کی روایت کے مطابق حسن رضی اللہ عنہ کی فوج مضبوط اور طاقتور تھی، نقلاً و عقلاً حسن رضی اللہ عنہ اور ان کے قائدین کے مابین روابط قائم رہتے تھے۔ حسن رضی اللہ عنہ ہی صاحبِ معاملہ اور اصل ذمہ دار تھے، ان کے اور وفدِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین گفت و شنید ہوئی تھی، انھوں نے بنوعباس اور بنوعبدالمطلب کے دوسرے خاندانوں اور اپنے تمام ساتھیوں کے جان و مال سے متعلق امان لے لی تھی اور حسن رضی اللہ عنہ اپنے قائدین کو صلح اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دستبرداری کی اطلاع دے چکے تھے، انھیں معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت اور جماعت میں داخل ہونے کا حکم دے چکے تھے، قیس رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے جب محسوس کیا کہ وہ کسی واجب الاطاعت خلیفہ کے ساتھ نہیں رہے تو جنگ ترک کرکے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کرلی اور جماعت میں داخل ہوگئے۔[2] لیکن زہری کی روایت میں حسن رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ کے دونوں بیٹوں کو چھوڑ کر بلا ضرورت قیس رضی اللہ عنہ کی تعریف موجود ہے۔[3] حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ اہل مدینہ، اہل حجاز اور اہل عراق سے کسی چیز کامطالبہ نہیں کریں گے۔[4] تاریخ سے واقف شخص کو یہ پتہ ہے کہ اس وقت سے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ ترک کردیا گیا[5] اور اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہونے والی چیزوں میں سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیاجائے گا۔ یہ بڑی اہمیت کا حامل قاعدہ تھا، جو ماضی کی طرف مڑ کر دیکھنے سے روکتا اورایسے نئے صفحہ کو کھولتا ہے جس کی پوری توجہ حاضر و مستقبل پر تھی۔[6]ایسا باہمی اتفاق وجود میں آیا جسے قانونی حیثیت حاصل تھی اور جس میں ہر بات پر عمل کرنا ضروری تھا، اس لیے کہ صلح کی بنیاد ان تمام معاملات کی عام معافی پر تھی جو فریقین کے مابین صلح سے پہلے وجود میں آئے تھے، اور بالفعل معاویہ رضی اللہ عنہ نے کسی سابقہ غلطی کی وجہ سے کسی کو سزا نہیں دی، اس طرح حسن رضی اللہ عنہ کو اختیار ہونے کے باوجود ان کی مصالحت لوگوں کی تالیف قلب کے لیے احسان اور عفو پر مبنی تھی، یہی وہ عظیم کارنامہ تھا جسے حسن رضی اللہ عنہ نے انجام دے کر امت کے مابین نئے سرے سے ربط و اتحاد پیدا کردیا، اور
Flag Counter