Maktaba Wahhabi

465 - 548
محمدیہ کی کوئی ایسی ادنیٰ ذمہ داری لوں جس میں معمولی بھی خونریزی ہو، میں اپنا فائدہ اور نقصان سمجھتا ہوں تم سب اپنا راستہ لو۔‘‘[1] آپ نے اپنی اس تقریر میں جس میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دست برداری کا اعلان کیا تھا فرمایا تھا: ’’حق خلافت اگر میرا تھا تو میں امت کی بھلائی اور خون ریزی سے بچاؤ کی خاطر اسے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے چھوڑ رہا ہوں۔‘‘[2] حسن رضی اللہ عنہ کی گفتگو اللہ تعالیٰ سے آپ کے شدید خوف پر غماز ہے، اسی خوف نے آپ کو صلح پر آمادہ کیا، اور اللہ تعالیٰ نے خوف الٰہی پر اپنے انبیاء و اولیاء کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: (إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ) (الانبیاء:۹۰) ’’یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ، طمع، ڈر اور خوف سے پکارتے تھے اورہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے۔ ‘‘ (وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ) (الرعد:۲۱) ’’اور اللہ نے جن چیزوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ اسے جوڑتے ہیں اور وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہیں۔‘‘ اللہ کا خوف ہی علم پر ابھارتا ہے، تمام نفسانی خواہشات کو مکدر کرتا ہے، دل کو دنیا سے بے رغبت کرتا ہے اور دنیا سے دور رہنے کی دعوت دیتا ہے، نہ وہ نفسیاتی گفتگو، جس کی گناہوں سے روکنے اور اچھے کاموں کو بجا لانے میں کوئی تاثیر نہ ہو اور نہ ہی وہ مایوسی جو ناامیدی کا باعث ہو۔[3] حسن رضی اللہ عنہ نے قربتِ الٰہی کی غرض سے مسلمانوں کو خونریزی سے بچانا چاہا، قیامت کے دن خونریزی سے متعلق اللہ کے محاسبہ سے ڈر گئے، چاہے اس کے لیے خلافت چھوڑنا ہی پڑے، چنانچہ اسی چیز نے آپ کو صلح پر آمادہ کیا۔
Flag Counter