Maktaba Wahhabi

451 - 548
میں گھس گئے، آپ کے نیچے سے مصلیٰ کھینچ لیا، آپ کے کپڑے لوٹ لیے، پھر عبدالرحمن بن عبداللہ بن ابوجعال ازدی آپ کی جانب بڑھا، آپ کی چادر کو گردن سے کھینچ لیا آپ صرف تلوار لٹکائے ہوئے دکھائی دینے لگے، جس سے آپ کے ہوش اڑ گئے، پھر آپ کا ہوش کام کرنے لگا، چنانچہ آپ گھوڑے پر سوار ہوکر لوگوں میں گھومنے لگے، بعض آپ کو عاجز اور کمزور کر رہے تھے اور بعض دوسرے انھیں آپ سے دور کر رہے تھے اور ہٹا رہے تھے، بنونضربن قعین کے قبیلہ بنو اسد بن خزیمہ کا جراح بن سنان نامی شخص جو خوارج میں سے تھا جاکر ’’مظلم ساباط‘‘ نامی مقام پر آپ کی گھات میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا، جب وہاں سے حسن رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا تو اس نے آپ کی سواری سے قریب ہو کر نکیل پکڑ لی، پھر اپنے ساتھ موجود پھاوڑا نکال کر کہا: اے حسن تم نے شرک کیا ہے، جیسا کہ اس سے پہلے تمھارے باپ نے شرک کیا ہے، پھر پھاوڑے سے ران پر حملہ کردیا، قریب تھا کہ زخم ہڈی تک پہنچ جائے، حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اس کے چہرے پر مارا، پھر دونوں ایک دوسرے سے الجھ گئے اور زمین پر گر پڑے، عبداللہ بن فضل طائی نے کود کر جراح کے ہاتھ سے پھاوڑاچھین لیا، ظبیان بن عمارہ تمیمی نے اس کی ناک کاٹ لی، اینٹ کا ایک ٹکڑا لے کر اس کے چہرے اور سر کو کچل دیا، جس سے وہ مرگیا، اور حسن رضی اللہ عنہ کو مدائن لے جایا گیا… پھر سعد بن مسعود نے حسن رضی اللہ عنہ کے لیے طبیب مہیا کرایا جو آپ کی دیکھ بھال کرتا رہا تاآنکہ آپ شفایاب ہوگئے، پھر آپ کو مدائن کے قصر ابیض میں منتقل کردیا۔‘‘[1] مذکورہ تقریر کے سلسلے میں یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ حسن و معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین مصالحت سے پہلے ابوحنیفہ دینوری اور بلاذری کے یہاں اس تقریر کا وجود ملتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ کی فوج کے وصف سے متعلق صحیح بخاری کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ کی فوج میں کافی قوت اور مضبوطی تھی، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مدائن میں جب عراقی فوج شامی فوج کے مدِمقابل تھی تو وہ مادی اور معنوی اعتبار سے بہت بہتر حالت میں تھی، اس کی حالت حسن رضی اللہ عنہ کی مذکورہ تقریر کے بعد بگڑ گئی تھی، اور اس کے بعد عراقی فوج میں شامی فوج سے مقابلہ کی طاقت باقی نہ رہی، اس لیے حقیقت سے قریب تر بات یہی ہے کہ عراقی اور شامی فوجوں کے باہم ٹکرانے اور حسن و معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین مصالحت کے بعد ہی حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کے سامنے تقریر کی تھی۔[2]
Flag Counter