Maktaba Wahhabi

449 - 548
۷۔ اس واقعے میں اس بات کی دلیل ہے کہ خلیفہ مسلمانوں کی بھلائی کی خاطر اپنے آپ کو خلافت سے الگ کرسکتا ہے، مال کے عوض دینی و دنیاوی منصب سے تنازل جائز ہے، اس سلسلے میں مال لیا اور دیا جاسکتا ہے، ان شرطوں کے ساتھ کہ جس کے لیے تنازل کیا جا رہا ہو وہ تنازل کرنے والے سے بہتر ہو، نیز یہ کہ دیا جانے والا مال شخصی ملکیت کا ہو، اور اگر معاملہ عام ولایت یعنی خلافت کا ہو اور دیا جانے والا مال بیت المال کا ہو تو اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس میں مصلحت عام ہو۔[1] جیسا کہ صلح سے متعلق ابن سعد نے درج ذیل روایت نقل کی ہے جو امام بخاریؒ کی روایت سے کم اہم نہیں ہے بلکہ اسی کا تکملہ سمجھی جاتی ہے اور وہ عمرو بن دینار کے طریق سے منقول ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اچھی طرح جانتے تھے کہ حسن رضی اللہ عنہ فتنے کو سب سے زیادہ ناپسند کرنے والے تھے، جب علی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی تو حسن رضی اللہ عنہ کے پاس ایلچی بھیج کر، خفیہ طور پر اپنے اور ان کے درمیان اختلافات کو ختم کرلیا، اور حسن رضی اللہ عنہ سے یہ عہد لینا چاہا کہ اگر ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور وہ زندہ رہتے ہیں تو اپنے بعد خلافت کے لیے ان کا نام پیش کریں، اور معاملہ انھی کے حوالے کردیں گے، جب حسن رضی اللہ عنہ نے اس عہد کی توثیق کردی تو ابن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اللہ کی قسم میں حسن رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا، اٹھنے لگا تو میرا کپڑا کھینچتے ہوئے کہا: ارے بھائی بیٹھو، بٹھایا تو میں بیٹھ گیا، کہنے لگے: میں نے ایک رائے قائم کی ہے، میں چاہتا ہوں کہ تم اس میں میری موافقت کرو، میں نے پوچھا: وہ کون سی رائے ہے؟ فرمایا: میری رائے یہ ہے کہ میں مدینہ جاکر وہیں قیام کرلوں اور یہ معاملہ معاویہ( رضی اللہ عنہ) کے لیے چھوڑ دوں، فتنہ بہت طویل ہوچکا،بہت خونریزیاں ہوچکیں، بہت سارے رشتے ناتے ٹوٹ چکے، بہت ساری راہیں مسدود ہوچکیں، سرحدیں بے حفاظت ہوچکیں۔ ابن جعفر رضی اللہ عنہما نے کہا: امت محمدیہ کی جانب سے اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے ہم اس رائے میں آپ کے ساتھ ہیں، حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: حسین کو بلاؤ، انھیں بلایا گیا وہ آئے تو ان سے کہا: اے برادرِ محترم! میری ایک رائے ہے، میں چاہتا ہوں کہ تم اس میں میری موافقت کرو، پوچھا: کون سی رائے ہے؟ تو ان سے وہی بات کہی تو ابن جعفر رضی اللہ عنہما سے کہی تھی، حسین رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ آپ کو اس بات سے پناہ میں رکھے، کہ آپ علی (جو قبر میں مدفون ہیں) کی تکذیب اور معاویہ کی تصدیق کریں، اس پر حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم تم میرے ہر ارادے کی مخالفت کرتے ہو، اللہ کی قسم جی میں آتا ہے کہ تمھیں ایک گھر میں اس وقت تک کے لیے بند کردوں جب تک میں اپنے معاملے کا فیصلہ نہ کر دوں۔ راوی کہتے ہیں: جب حسین رضی اللہ عنہ آپ کے غصہ کو بھانپ گئے تو کہا: آپ والدِ محترم کے بڑے بیٹے ہیں، ہمارا معاملہ آپ کے تابع ہے آپ کی سمجھ میں جو آئے کیجیے۔[2]
Flag Counter