Maktaba Wahhabi

439 - 548
سے صلح کرتے۔‘‘ اگر حسن رضی اللہ عنہ کا رعب و دبدبہ نہ ہوتا تو معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان سے گفتگو کرنے اور ان کے شرائط و مطالبات کو مان لینے کی ضرورت نہ ہوتی، جاسوسوں کے ذریعہ سے ان کی کمزوری اور طاقت و قوت کا فقدان معلوم ہوجاتا، کسی سے گفتگو اور اس کے شرائط و مطالبات کو تسلیم کیے بغیر کوفہ پر قبضہ کرلیتے، بلاشبہ حسن رضی اللہ عنہ کے خلاف معاویہ رضی اللہ عنہ کو طاقت و قوت کی برتری حاصل تھی، تو کیا اسی سبب سے حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت کی تھی؟[1] ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس سلسلے میں ’’منہاج السنۃ‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ان لوگوں کی طرح جنھوں نے اپنے اعوان و انصار کی قلت کے باوجود دشمنوں سے جنگیں لڑیں، حسن رضی اللہ عنہ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑ سکتے تھے، اگرچہ ان کے ساتھی معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں سے کم تھے، لیکن حسن رضی اللہ عنہ اختلاف و انتشار اور فتنہ کو سخت ناپسند کرتے تھے اور امن وامان اور مصالحت کو ترجیح دیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے امت کا اختلاف ختم کرکے انھیں متحد کردیا۔‘‘ [2] آپ کا نظریہ نہایت واضح مصالحت کا تھا جو مختلف اسباب و عوامل کے باعث اور مختلف مراحل میں انجام پائی، رکاوٹیں دور ہوگئیں، شرائط لکھی گئیں اوراس کے بہت سارے نتائج برآمد ہوئے، اس مصالحت کا شمار ہمیشہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے قابلِ فخر کارناموں میں ہوگا۔ ڈاکٹر خالد الغیث حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کو خونریزی سے بچانے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مصالحت کرنے میں حسن رضی اللہ عنہ کی حیثیت جمعِ قرآن میں عثمان رضی اللہ عنہ کی سی اور حروب ردہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سی ہے۔‘‘[3] حسن رضی اللہ عنہ کا یہ کارنامہ نبوت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، اس پر صراحت کے ساتھ وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے امام بخاری نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے طریق سے نقل کیا ہے: ((قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صلي الله عليه وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ، وَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَی جَنْبِہِ وَ ہُوَ یُقْبِلُ عَلَی النَّاسِ مَرَّۃً وَ عَلَیْہِ أُخْرَی وَ یَقُوْلُ: إِنَّ ابْنِیْ ہَذَا سَیِّدٌ وَ لَعَّلَ اللّٰہُ أَنْ یُّصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتْیْنِ عَظِیْمَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔)) [4]
Flag Counter