Maktaba Wahhabi

430 - 548
و إلا فمن آل المرار فإنہم ملوک ملوک من ملوک أعاظم ’’یا بنومرار قبیلے کا ہے جو بڑے بڑے بادشاہوں کے بادشاہ ہیں۔‘‘ فقمت إلی عنز بقیۃ أعنز فأذبحہا فعل امریٔ غیر نادم ’’چنانچہ بچی ہوئی بکری کو ذبح کردیا، اور مجھے اس پر کچھ بھی ندامت و افسوس نہیں۔‘‘ یعوضنی منہا عنَّانٌ و لم یکن یساوی لحیم العنز خمس دراہم[1] ’’ایک بہت نمایاں شخص نے مجھے اس کا معاوضہ دیا ہے جب کہ بکری کا تھوڑا سا گوشت پانچ درہم کے مساوی بھی نہیں تھا۔‘‘ پھر اس کے سامنے دینار پیش کرکے پورا واقعہ بیان کیا، اس نے کہا: اللہ کی قسم کیا ہی بری مہمان نواز ہو تم، کیا تم نے اپنی مہمان نوازی کو ایسی چیز کے عوض بیچ دیا جو میرے نزدیک پتھر کے برابر ہے؟ جواب دیا: اللہ کی قسم مجھے یہ چیز ناپسند تھی ،اورمجھے ملامت کا خوف تھا، کہا: تجھے ملامت کا خوف تھا اور طعنے کا خوف نہیں رہا؟ وہ لوگ کس طرف گئے؟ اس نے راستے کی جانب اشارہ کیا، اور جسے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھیجا تھا اس کے بارے میں کہا: یہ تمھاری مدد کرے گا، چنانچہ اس نے کہا: گھوڑے پر زین کسو، پوچھا: کیا کرو گے؟ کہا؟ میں لوگوں کے پاس جاؤں گا اگر میری مہمان نوازی (بغیر معاوضہ) انھوں نے قبول کرلی تو ٹھیک ورنہ میں ان سے جنگ کروں گا، اس نے کہا: میں تمھیں اللہ کا واسطہ دیتی ہوں کہ تم ایسا نہ کرو اور نہ انھیں تکلیف پہنچاؤ، وہ اسے مارتے ہوئے کہنے لگا: کیا تم مہمان نوازی کو ختم کردینا چاہتی ہو؟ چنانچہ وہ گھوڑے پر سوار ہوا، اور نیزہ لے کر چل پڑا، جسے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھیجا تھا، وہ اس کے ساتھ چلتے رہے اور کہتے رہے: میں نہیں سمجھتا کہ آپ ان لوگوں کو پاسکیں گے، کہا: اللہ کی قسم وہ چاہے جہاں پہنچ جائیں میں ان تک ضرور بالضرور جاؤں گا، جب وہ سمجھ گئے کہ وہ اپنے ارادے سے باز آنے والا نہیں ہے تو کہا: ٹھہرو، میں تمھیں ان لوگوں سے ملاتا ہوں، اور انھیں تمھارے بارے میں بتلاتا ہوں، چنانچہ آگے بڑھ کر اس نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کو پورے معاملے کی جانکاری دی، عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہنے لگے، اس بدوی عورت کو اسی پریشانی کا ڈر تھا، جب وہ بدوی شخص ان کے قریب پہنچا تو عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما اسے سلام کیا، نیز اس عورت کے اچھے سلوک کی اسے خبر دی، اس نے کہا: میرے خیال میں یہی پوری بات نہیں، آپ اس سے بات
Flag Counter