Maktaba Wahhabi

395 - 548
دو، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: أما قریش فأقوام مسرولۃ و الیثربیون أصحاب التبابین ’’قریش والے پاجامہ پہننے والے ہیں اور مدینہ والے تو نیکر والے ہیں۔‘‘ قیس رضی اللہ عنہ نے کہا: تلک الیہود التی یعنی ببلدتنا کما قریش ہم اہل السخاخین[1] ’’وہ یہود جو ہمارے شہر میں ہیں قریش کے مانند ہیں جو قصابوں کی چھریوں والے ہیں۔‘‘ دوسری روایت میں ہے کہ قیصر نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا: میں آپ کے پاس دو آدمیوں کو بھیج رہا ہوں، ان میں سے ایک میرے ملک کا سب سے طاقتور آدمی ہے، دوسرا سب سے لمبا ہے، اس طرح کے مقابلے بادشاہوں میں چلتے رہتے تھے، اپنی حکومت سے ان میں سے ہر ایک کا مدمقابل پیش کرو، اگر تمھارے لوگ غالب آگئے تو میں تمھارے پاس مال اور اتنے اتنے مسلمان قیدی بھیج دوں گا، اور اگر ہمارے لوگ غالب آگئے تو میرے تین سال آرام اور آسانی سے گزریں گے، جب قیصر کا خط معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملا تو اس کو اہم سمجھتے ہوئے اپنے لوگوں سے مشورہ کیا، جواباً کہا گیا: طاقتور کے مقابلے کے لیے یا تو محمد بن حنفیہ کو بلایے یا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو، محمد بن حنفیہ کو بلایا جب کہ رومی طاقتور موجود تھے، ان کو بلانے کا مقصد بتایا، محمد نے اس رومی سے پوچھا: تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے کہا: ہم میں سے ہر ایک بیٹھے اور دوسرے کو اپنا ہاتھ دے دے، جو دوسرے کو اپنی جگہ سے ہٹاد ے یا اٹھا دے وہ کامیاب ہوگا، اور جو عاجز رہے اور اس کے ساتھی نے اس کو مجبور کردیا ہو تو وہ مغلوب ہوگا۔ محمد نے کہا: تمھاری یہ بات منظور ہے، تمھی بتاؤ کون پہلے بیٹھے؟ اس نے کہا: تمھی بیٹھو، چنانچہ آپ بیٹھے اور اپنا ہاتھ اسے دے دیا، وہ پوری کوشش کرنے لگا کہ آپ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے لیکن محمد بن حنفیہ نے اپنی جگہ سے ذرا بھی جنبش نہ کی، حاضرین کے سامنے رومی کا عاجز ہونا واضح ہوگیا، پھر اس سے محمد نے کہا: اب تم بیٹھو، وہ بیٹھا، آپ نے اس کے ہاتھ کو پکڑتے ہی اس کو اپنی جگہ سے اٹھا لیا، پھر زمین پر پھینک دیا، اس پرمعاویہ رضی اللہ عنہ اور دیگر موجود مسلمانوں کو خوشی ہوئی، پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد رضی اللہ عنہ اور رومی سے کہا: تم دونوں لمبائی میں مقابلہ کرو، قیس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنا پاجامہ نکالتا ہوں، اسے یہ مدمقابل پہنے، اس سے ہماری لمبائی کا پتہ چل جائے گا، اپنا پاجامہ نکال کر رومی کو دیا، اس نے پہنا تو سینے تک پہنچ گیا، جب کہ کچھ حصہ زمین پر گھسٹ رہا تھا، اس پر بھی لوگ خوش ہوئے،
Flag Counter