Maktaba Wahhabi

348 - 548
پہنچانے کا عادی، نیز نظام حکومت کو مضبوط کرنے اور حاکمِ وقت کی سچی وفاداری کا حریص بناتی ہے۔ ٭ شورائی نظام امت کو باور کراتا ہے کہ وہی صاحبِ حکومت ہے، اور حاکمِ وقت کو باور کراتا ہے کہ وہ حکومت و سربراہی میں امت کی نیابت کر رہا ہے۔ ٭ شورائیت میں اللہ کے حکم کی بجاآوری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء ہے، مذکورہ خصوصیتوں کے بالمقابل یہ خصوصیت زیادہ اہم ہے، یہی شورائی نظام کی کامیابی کا سب سے اہم سبب ہے۔[1] چنانچہ حسن رضی اللہ عنہ شورائی نظام کا اہتمام کرنے، اس کو برتنے اور بروئے کار لانے پر لوگوں کو ابھار رہے ہیں، اسی لیے وہ کہتے ہیں: ’’جب بھی کوئی قوم باہم مشورہ کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی موجودہ رائے سے بہتر رائے کی جانب ان کی رہنمائی کرتاہے۔‘‘[2] ۶۔حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے مسلمانوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ((یَا ابْنَ آدَمَ عِفَّ عَنْ مَحَارِمِ اللّٰہِ تَکُنْ عَابِدًا، وَ ارْضَ بِمَا قَسَمَ اللّٰہُ لَکَ تَکُنْ غَنِیًّا، وَ أَحْسِنْ جَوَارَ مَنْ جَاوَرَکَ تَکُنْ مُسْلِمًا، وَ صَاحِبِ النَّاسَ بِمِثْلَ مَا تُحِبُّ أَنْ یُّصَاحِبُوْکَ بِمِثْلِہِ تَکُنْ عَادِلًا، إِنَّہُ کَانَ بَیْنَ أَیْدِیْکُمْ قَوْمٌ یَجْمَعُوْنَ کَثِیْرًا وَ یَبْنُوْنَ مَشِیْدًا وَ یَأْمُلُوْنَ بَعِیْدًا، اَصْبَحَ جَمْعُہُمْ بُوْرًا وَ عَمَلُہُمْ غَرُوْرًا وَ مَسَاکِنُہُمْ قُبُوْرًا، یَاابْنِ آدَمَ إِنَّکَ لَمْ تَزَلْ فِیْ ہَدْمِ عُمُرِکَ مَنْذُ سَقَطْتَّ مِنْ بَطْنِ أُمِّکَ، فَجُدَّ بِمَا فِیْ یَدِکَ لِمَا بَیْنَ یَدَیْکَ، فَإِنَّ الْمُؤْمِنَ یَتَزَوَّدُ وَ الْکَافِرُ یَتَمَتَّعُ وَ تَلَا ہٰذِہِ الْآیَۃَ: _…)) (البقرۃ:۱۹۷) [3] ’’اے ابن آدم! اللہ کی حرام کردہ چیزو ں سے بچ جا، عابد ہو جائے گا، اللہ نے تیرے لیے جو کچھ مقدر کر دیا ہے اس پر راضی ہو جا غنی ہوجائے گا، پڑوسیوں کے لیے اچھا پڑوسی بن جا مسلمان ہو جائے گا، لوگوں کے ساتھ اسی طرح پیش آؤ جیسا تم چاہتے ہو کہ لوگ تمھارے ساتھ پیش آئیں تو عادل بن جاؤ گے، تم سے پہلے کچھ لوگ تھے جو زیادہ سے زیادہ مال جمع کرتے تھے، مضبوط و پختہ عمارات بناتے تھے، ان کی آرزوئیں دراز ہوتی تھیں، ان کا جمع کردہ مال تباہ ہوگیا، ان کے اعمال
Flag Counter