Maktaba Wahhabi

261 - 548
اور آپ کی شخصیت سازی میں کافی اثر رہا، آپ کا دل پاک اور نفس صاف و ستھرا تھا اور آپ کی روح ان سے ہم آہنگ رہی۔ اس لیے آپ نے عالمِ وجود کی عظیم حقیقتوں کا ادراک کرلیا۔ آپ نے اپنے استاد عبداللہ بن حبیب بن ربیعہ اور ابوعبدالرحمن سلمی کے پاس قرآن حفظ کیا، جو کوفہ کے قاری تھے، اور ان کے والد صحابی تھے، انھوں نے علی، عبداللہ بن مسعود اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم سے حدیثوں کو روایت کیا ہے، انھی سے عاصم، عطاء، حسن اور حسین نے علم قراء ت حاصل کیا، یہ صبح و شام دس دس آیتیں پڑھاتے تھے،آپ فقیہ تھے، عبدالملک بن مروان کے زمانۂ خلافت میں آپ کی وفات ہوئی، آپ ثقہ اور کثیرالحدیث تھے۔‘‘[1] عبداللہ بن مبارک، عطاء بن سائب سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہم ابوعبدالرحمن سلمی کے پاس گئے، آپ جاں کنی کی حالت میں تھے، ہم نے ان سے کہا: آپ بستر پر چلے جائیں، وہ زیادہ نرم ہوگا۔ انھوں نے کہا: مجھ سے فلاں شخص نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: ((لَا یَزَالُ أَحَدُکُمْ فِیْ صَلَاۃٍ مَا دَامَ فِیْ مُصَلَّاہُ یَنْتَظِرُ الصَّلَاۃَ۔)) [2] ’’جو بھی مصلیٰ پر بیٹھے نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے وہ نماز کے حکم میں ہوتا ہے۔‘‘ ابن سعد کی روایت میں ہے: ((اَلْمَلَائِکَۃُ تَقُوْلُ: أللّٰہُمَّ اغْفِرْلَہٗ أللّٰہُمَّ ارْحَمْہُ۔)) ’’فرشتے کہتے ہیں اے اللہ! اس کی مغفرت کردے، اے اللہ! اس پر رحم فرما۔‘‘ ابوعبدالرحمن سلمی نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ میں ایسی حالت میں وفات پاؤں کہ میں اپنی مسجد میں رہوں۔[3] قرآن کریم کی تعلیم میں آپ کا طریقہ وہی تھا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا، ابوعبدالرحمن سلمی سے مروی ہے: کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ جیسے لوگ جو ہمیں قرآن پڑھاتے تھے، انھوں نے ہم سے بیان کیا ہے کہ وہ لوگ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیتیں سیکھ لیتے تو ان میں موجود علم و عمل کو جب تک حاصل نہ کرلیتے آگے نہ بڑھتے تھے، چنانچہ وہ کہتے تھے کہ ہم نے قرآن، علم اور عمل سب ایک ساتھ سیکھا، اسی لیے ایک سورت کے یاد کرنے میں ان کا لمبا وقت لگ جاتا تھا۔[4] اسی طرح عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے مشہور ترین
Flag Counter