Maktaba Wahhabi

252 - 548
البیت۔)) [1] ’’جو مجھے پہچانتا ہے پہچانتا ہے، جو نہیں پہچانتا ہے وہ جان لے کہ میں حسن بن علی ( رضی اللہ عنہما ) ہوں، میں بشیر ہوں، نذیر، داعی الی اللہ اور سراج منیر کا بیٹا ہوں، میں اہل بیت میں سے ہوں، جن کی (ہر قسم کی) گندگی کو اللہ نے دور کردیا ہے اور انھیں خوب اچھی طرح پاک کردیا ہے، جن کی محبت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرض کرتے ہوئے کہا ہے جو شخص کوئی بھلائی کمائے گا ہم اس کے لیے اس نیکی میں اور نیکی بڑھا دیں گے، یہاں نیکی کرنے سے مراد ہم اہل بیت کی محبت ہے۔‘‘ (حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں) ابوالاسود دؤلی کا ایک خطبہ گھڑتے ہوئے کہاہے: ((ثم بکی حتی اختلفت أضلاعہ ثم قال: و قد أوصی بالإمامۃ بعدہ إلی ابن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و ابنہ و سلیلہ و شبیہہ فی خلقہ و ہدیہ و إنی لأرجو أن یجبر اللّٰہ بہ ما وہي، و یسد بہ ما انثلم و یجمع بہ الشمل و یطفیٔ بہ نیران الفتنۃ فبایعوہ ترشدوا۔)) ’’پھر وہ (ابوالاسود دولی) اس شدت سے رونے لگے کہ ان کی پسلیاں حرکت کرنے لگیں، پھر کہا: آپ (علی رضی اللہ عنہ ) نے اپنے بعد نواسۂ رسول، اپنے بیٹے، اخلاق و اطوار میں اپنے شبیہ کے لیے امامت کی وصیت کی، مجھے بلاشبہ امید ہے کہ امت کو لاحق کمزوری اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ سے دور کردے گا اور جو دراڑ پڑگئی ہے ختم کردے گا، آپ کے ذریعہ سے اتفاق و اتحاد پیدا کرکے فتنے کی آگ کو بجھا دے گا، اس لیے ان کے لیے بیعت کرلو رشد و ہدایت پر رہو گے۔‘‘ چنانچہ تمام شیعہ نے بیعت کرلی، صرف انھی لوگوں نے بیعت نہیں کی جو عثمانی رائے رکھتے تھے، اور وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے۔[2] ان لوگوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھیجے گئے حسن رضی اللہ عنہ کے ان طویل خطوط کا ذکر کیا ہے جن میں آپ انھیں اپنی بیعت کی دعوت دیتے ہیں، اپنی دلیل دیتے ہیں، اپنے زیادہ حق دار ہونے کو ثابت کرتے ہیں، حالانکہ یہ خطوط سند اور متن کے اعتبار سے ثابت نہیں ہیں، وہ صرف صحیح سندوں سے عاری شیعوں کی کتابوں میں مذکور ہیں، ساتھ ہی ان باتوں سے متعارض ہیں جو حسن رضی اللہ عنہ سے ان کی خلافت کے بارے میں ثابت ہیں۔[3]
Flag Counter