Maktaba Wahhabi

245 - 548
ہے، امرِواقع یہ ہے کہ وہ سب اس وقت سے اب تک بغیر امام کے ہیں، ان کی اس حالت سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ان کے خیال میں امام معصوم کے وجود کے لیے جو ضروری سبب اور مصلحت ہے وہ اسے مفقود پاتے ہیں اور یہ سراسر تناقض و تضاد ہے، اسی لیے شیعہ نے مسئلۂ حصرِ ائمہ کے اشکال سے بچنے کے لیے ایک نئے مسئلے کو جنم دیا کہ مجتہد امام کا نائب ہوگا، نیابت کی حدود میں ان کے اقوال مختلف ہیں، عصر حاضر میں اپنے دین کی اس بنیاد کو مکمل طور سے چھوڑنے پر مجبور ہوگئے، اور حاکم وقت کی تعیین انتخاب کے طریقے سے کرنے لگے، حصرعدد کو چھوڑ کر حصرِ نوع کے قائل ہوگئے، چنانچہ ان کے نزدیک ملک کا سربراہ صرف شیعی فقیہ ہوسکتا ہے،[1] جب کہ وہ بالفعل و بالاتفاق غیرمعصوم ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی نص صریح ہوتی ہے جو اسے امامت کا اہل بناتی ہو۔ انھوں نے اپنے اس طرز عمل سے اس نظریۂ امامت کو منسوخ کردیا جس کی وجہ سے انھوں نے امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا تھا، چنانچہ ان کے نزدیک ایک عام آدمی جو اہل بیت میں سے نہ ہو اپنے فقیہ ہونے کے ناتے اس بات کا اہل ہوسکتا ہے کہ وہ حکومت و قیادت کرے۔ احمد کاتب نے شوریٰ سے لے کر ولایت فقیہ تک شیعی سیاسی فکر کے ارتقاء کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ امیر المومنین حسن بن علی رضی اللہ عنہما اور شوریٰ کے بارے میں اس نے گفتگو کی ہے اور واضح طور پر بیان کیا ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے لوگوں کو اپنی بیعت کی جانب بلانے میں اپنے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے والد امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے کسی نص پر اعتماد نہیں کیا، نیز بتایا ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ شورائی نظام اور خلیفہ کے انتخاب میں امت کے حق کے قائل تھے، آپ کا یہ نظریہ دوبارہ اس وقت کھل کر سامنے آیا جب آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگئے، اور ان پر یہ شرط عائد کی کہ مسلمانوں کے مابین شورائی نظام لوٹنا چاہیے۔ اگر خلافت کا تعلق منجانب اللہ تنصیص سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعیین سے ہوتا تو کسی بھی حال میں حسن رضی اللہ عنہ کے لیے جائز نہ ہوتا کہ کسی کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوجاتے، اس کے بعد ان کے لیے یہ بھی جائز نہ ہوتا کہ وہ معاویہ کے ہاتھ پر خود بیعت کرتے یا اپنے ساتھیوں کو ان کی بیعت کی دعوت دیتے، ان کے لیے یہ بھی جائز نہ ہوتا کہ وہ حسین رضی اللہ عنہ سے چشم پوشی کرتے، بلکہ اپنے بعد ان کی تعیین کی جانب ضرور اشارہ کرتے، لیکن حسن رضی اللہ عنہ نے ایسا کچھ نہ کیا، بلکہ آپ کا طرز عمل بتاتا ہے کہ آپ شورائی نظام کے تحت خلیفہ کے انتخاب میں مسلمانوں کے حق کے قائل تھے، اسی طرح حسین رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی کے آخری لمحات تک ان کی بیعت پر برقرار رہے اور امیرالمومنین حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کوفہ کے شیعوں کے اس مطالبہ کو مسترد کردیا کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کردیں، اور صاف واضح کردیا کہ ان کے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین ایسا عہد و
Flag Counter