Maktaba Wahhabi

220 - 548
ہے، یہ مستقبل کی خبر اور آپ کے نبی ہونے کی دلیل ہے اور یہ صحیح ترین حدیثوں میں سے ہے۔[1] حدیث کو ذکر کرنے کے بعد امام ذہبی کہتے ہیں: اس سلسلے کی حدیث متعدد صحابیوں سے مروی ہے اس لیے وہ متواتر ہے۔[2] ۴۔علما کے نزدیک عمار رضی اللہ عنہ کے بارے میں حدیثِ رسول ’’تَقْتُلُکَ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ‘‘[3] کا مفہوم: ا: ابن حجر رحمہ اللہ کا قول ہے: یہ حدیث نبوت کی دلیل، علی و عمار رضی اللہ عنہما کی واضح فضیلت اور ان نواصب کی تردید پر مشتمل ہے جو یہ خیال رکھتے ہیں کہ جنگوں میں علی رضی اللہ عنہ حق پر نہیں تھے۔[4] نیزانھی کا قول ہے: تَقْتُلُ عَمَّارَانِ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ والی حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اس لیے کہ اصحاب معاویہ نے انھیں قتل کیا۔[5] ب: امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے: صفین کے دن وہ جہاں جاتے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے پیچھے ہوتے اس لیے کہ اس حدیث کے باعث انھیں علم تھا کہ وہ صحیح گروہ کے ساتھ ہوں گے۔[6] ت: ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول ہے: علی و اصحاب علی رضی اللہ عنہم اصحاب معاویہ رضی اللہ عنہم کے مقابلے میں حق سے زیادہ قریب تھے، اصحاب معاویہ باغی گروہ تھے جیسا کہ صحیح مسلم میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت ہے کہتے ہیں کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمار رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا: ’’تَقْتُلُکَ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ‘‘ باغی گروہ تمھیں قتل کرے گا۔[7] نیز انھی کا قول ہے: امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہتے ہوئے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو اہل شام نے قتل کردیا اسی سے قولِ رسول ’’تَقْتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ‘‘ کا راز کھلا، اور یہ بات واضح ہوگئی کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے، معاویہ رضی اللہ عنہ بغاوت کرنے والے تھے، نیز نبوت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی بھی واضح ہوگئی۔[8] ث: امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول ہے: وہ مومنوں کا ایک گروہ ہے جس نے علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی، جیسا کہ عمار رضی اللہ عنہ کے بارے میں قولِ رسول ’’تَقْتُلُکَ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ‘‘ اس بات پر صراحت سے دلالت کرتا ہے۔[9]
Flag Counter