Maktaba Wahhabi

206 - 548
((لَوَدِدْتُّ أَنِّيْ مِتُّ قَبْلَ ہٰذَا بِعَشْرِیْنَ سَنَۃً۔)) [1] ’’میری خواہش ہے کہ اس حادثے سے بیس سال پہلے وفات پاجاتا۔‘‘ ب: نعیم بن حماد نے اپنی سندسے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ جب لڑائی شباب پر تھی تو میری آڑ میں ہو کر کہہ رہے تھے: ’’اے حسن میری خواہش ہے کہ میں اس حادثے سے بیس سال قبل وفات پاجاتا۔‘‘[2] ت: حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہتے ہیں: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے ایک معاملے کو حل کرنا چاہا، تو معاملات پے درپے پیش آتے رہے، چنانچہ آپ کو چھٹکارا نہ ملا۔[3] ث: سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے علی رضی اللہ عنہ کو جب کہ تلواریں چل رہی تھیں کہتے سنا کہ اے حسن! کیا یہ سب باتیں ہم میں پائی جا رہی ہیں، کاش میں بیس یا چالیس سال قبل وفات پاجاتا۔[4] ج: ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے: عائشہ رضی اللہ عنہا نے نہ جنگ میں حصہ لیا، اور نہ ہی جنگ کے لیے نکلی تھیں، وہ صرف مسلمانوں کے مابین مصالحت کی غرض سے نکلی تھیں، ان کا خیال تھا کہ ان کے نکلنے میں مسلمانوں کی مصلحت ہے، بعد میں انھیں معلوم ہوا کہ نہ نکلنا بہتر تھا، جب انھیں اپنا نکلنا یاد آتا تو رونے لگتیں تاآنکہ آپ کا دوپٹہ بھیگ جاتا۔ اس طرح عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنھیں اسلام کی سبقت حاصل تھی جنگ میں شرکت پر نادم ہوئے، چنانچہ طلحہ، زبیر اور علی رضی اللہ عنہم وغیرہ نادم ہوئے۔ جنگ جمل کے دن ان کا لڑائی کا ارادہ نہیں تھا، لیکن ان کی چاہت کے بغیر لڑائی چھڑ گئی۔[5] ح: امام ذہبی کہتے ہیں: بلاشبہ عائشہ رضی اللہ عنہا بصرہ جانے اور جنگ جمل میں شریک ہونے پر سخت نادم تھیں، انھوں نے سوچا بھی نہ تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا۔[6] جنگ جمل (جس میں حسن رضی اللہ عنہ شریک تھے) کی تفصیلات کے لیے میری کتاب ’’أسمی المطالب فی سیرۃ أمیر المومنین علی بن أبي طالب‘‘ کامراجعہ کیا جائے۔
Flag Counter