Maktaba Wahhabi

185 - 548
((وَ اللّٰہُ مَا کَتَبْتُ إِلَیْکُمْ کِتَابًا۔))[1] ’’اللہ کی قسم میں نے تمھیں کوئی خط نہیں لکھا۔‘‘ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جانب یہ بات منسوب کی گئی کہ انھوں نے لوگوں کو خط لکھ کر اپنے پاس آنے کا حکم اس لیے دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو بگاڑ دیا گیا ہے اور اسے چھوڑ دیا گیا ہے اور مدینہ میں جہاد دور سرحدوں کی حفاظت سے بہتر ہے۔[2] ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جھوٹی تہمت ہے، ان کی جانب منسوب جعلی خطوط لکھے گئے تھے، چنانچہ علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کی جانب سے قاتلین عثمان خوارج کی طرف جعلی خطوط لکھے گئے، جن کا ان لوگوں نے انکار کیا ہے، اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب جعلی خط لکھا گیا نہ آپ نے اس کا حکم دیا تھا اور نہ آپ کو اس کا علم تھا۔‘‘[3] ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کی اس بات کی تائید طبری اور خلیفہ کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ کبارِ صحابہ علی، عائشہ اور زبیر رضی اللہ عنہم نے بذات خود صحیح روایتو ں کے مطابق ان جعلی خطوط کا انکار کیا ہے۔[4] جن مجرم ہاتھوں نے صحابہ کی جانب منسوب جھوٹے اور جعلی خطوط تیار کیے تھے انھی ہاتھوں ہی نے فتنوں کی آگ شروع سے آخر تک بھڑکائی تھی، اتنا لمبا چوڑا فساد پھیلایا تھا، انھوں نے ہی عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب جھوٹی باتوں کو گھڑا تھا اور پھیلایا تھا، اور لوگوں کو بار بار سنا کر ذہن میں بٹھایا تھا، تا آنکہ معمولی قسم کے لوگوں نے بھی ان باتوں کو قبول کرلیا، پھر انھوں نے ہی عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب یہ جعلی خط تیار کیا تاکہ عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے جائیں۔ اس سبائی یہودی سازش کا نشانہ صرف شہید ہونے والے عثمان رضی اللہ عنہ ہی نہ تھے بلکہ ان سے پہلے اس کا نشانہ بذاتِ خود اسلام تھا، پھر محرف اور بگاڑی ہوئی تاریخ، اور اس تاریخ کو پڑھنے والی آئندہ نسلیں بھی اس حاسد، نفس پرست، لالچی اور خبیث یہودی اور اس کے کارندوں کے نشانے پر تھیں۔ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اسلامی نسلیں اپنی صحیح تاریخ سے آگاہ ہوسکیں اور اپنی عظیم شخصیات کی سیرتوں کو جان سکیں ؟ بلکہ عصر حاضر میں مسلمان اہل قلم کے لیے کیا وہ وقت نہیں آیا کہ وہ اللہ سے ڈریں اور تحقیق و تدقیق
Flag Counter