Maktaba Wahhabi

175 - 548
شوریٰ کی پوری مہارت سے قیادت کی اور سب سے معزز عہدے سے الگ تھلگ رہے۔[1] امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بہترین کارناموں میں سے یہ ہے کہ شوریٰ کے وقت آپ نے اپنے آپ کو خلافت کی ذمہ داری قبول کرنے سے الگ رکھا، اور اہل حل و عقد کی رائے کے مطابق امت کے لیے خلیفہ کو منتخب کیا، چنانچہ آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں پوری امت کو تیار کرلیا، اگر آپ کو اس کی چاہت ہوتی تو خود خلیفہ بن جاتے، یا اپنے چچا زاد بھائی اور سب سے قریبی شخص سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دیتے۔‘‘[2] اس طرح خلفائے راشدین کے عہد میں شوریٰ کی ایک نئی شکل وجود میں آئی اور وہ یہ کہ مجلس شوریٰ کے توسط سے خلیفہ منتخب کیا جائے، مجلس شوریٰ عام مشورہ کے بعد اپنے میں سے کسی ایک کی تعیین کرے، پھر عام بیعت لی جائے۔[3] یہی وہ باتیں ہیں جو شوریٰ میں پیش آئیں اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے ان کا مشاہدہ کیا۔ ان شیعی باطل روایات کا کوئی اعتبار نہیں جو شوریٰ کے واقعہ میں داخل کردی گئی ہیں اور اسلامی تاریخ کی شبیہ کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے، مستشرقین نے انھیں روایتوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا، بڑے پیمانے پر اس کی نشر و اشاعت کی، انھیں سے انھی موجودہ مورخین و مفکرین کی اکثریت متاثر ہوگئی اور روایات کی چھان بین نہیں کی، ان کی سند اور متن کی تحقیق نہیں کی، چنانچہ مسلمانوں کے مابین یہ روایتیں رواج پاگئیں۔ رافضی شیعی مورخین نے شوریٰ کے، اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بنائے جانے کے واقعے کو بڑی اہمیت دی ہے اس میں بہت ساری باطل اور جھوٹی باتوں کو شامل کردیا ہے، ان میں سے بعض لوگوں نے خاص کتابیں تالیف کی ہیں۔ ابومخنف نے ’’کتاب الشوریٰ‘‘ تالیف کی، اسی طرح ابن عقدہ اور ابن بابویہ نے۔[4] شوریٰ، بیعتِ عثمان اور خلیفہ بنانے کی تاریخ کے سلسلے میں ابن سعد نے واقدی کے طریق سے نو روایتیں نقل کی ہیں۔[5] عبید اللہ بن موسیٰ کے طریق سے ایک روایت آئی ہے جس میں عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت، مجلس شوریٰ میں چھ ہی آدمیوں کی تعیین، خلیفہ بننے کی صورت میں علی و عثمان رضی اللہ عنہما میں سے ہر ایک کو آپ کی وصیت، نیز اس سلسلے میں صہیب رضی اللہ عنہ کو آپ کی وصیت کا تذکرہ ہے۔[6]
Flag Counter