Maktaba Wahhabi

119 - 548
کو خصوصیت حاصل ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے خصوصیت کے ساتھ دعا کی۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہے کہ کسی شخص کی بیوی اس کے اہل بیت میں سے ہوتی ہے، ایسا استعمال عربی زبان میں عام طور سے ملتا ہے، ایک آدمی دوسرے آدمی سے پوچھتا ہے: ’’کَیْفَ اَہْلُکَ‘‘ تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ تمھاری بیوی بچے کیسے ہیں ؟ اور جواب میں وہ کہتا ہے: ہم بخیر، وہ سب خیریت سے ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتاہے: (قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ ۖ رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ) (ہود:۷۳) ’’فرشتوں نے کہا: کیا تو اللہ کی قدرت سے تعجب کر رہی ہے؟ تم پر اے اس گھر کے لوگو! اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔‘‘ اس آیت کی مخاطب بالاجماع ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ علیہا السلام ہیں، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی کی بیوی اس کے اہل بیت میں سے ہے۔[1] اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کی بھی مخاطب موسیٰ علیہ السلام کی بیوی ہیں: ( فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ) (القصص: ۲۹) ’’جب موسیٰ نے مدت پوری کرلی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے تو کوہ طور کی طرف آگ دیکھی، اپنی بیوی سے کہنے لگے: ٹھہرو! میں نے آگ دیکھی ہے، بہت ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی خبر لاؤں، یا آگ کا کوئی انگارہ لاؤں تاکہ تم سینک لو۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے قول: (وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا ﴿٥٤﴾ وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا)(مریم:۵۴-۵۵) ’’اس کتاب میں اسماعیل کا واقعہ بیان کرو، وہ بڑا ہی وعدے کا سچا تھا، اور رسول اور نبی بھی تھا، وہ اپنے گھر والوں کو برابر نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پسندیدہ اور مقبول بھی تھا۔‘‘
Flag Counter