ایرانی نظریہ دستور کا تقاضاکچھ ایسا ہی تھا۔ ۔ ۔ بہر حال ایرانی نظریہ دستور کچھ بھی ہو یہ انتظام بڑا خطرناک ہے‘ اور سنی ممالک اسے اختیار بھی کریں تو عارضی طور پر۔ انہیں چاہیے مجالس قانون ساز میں علماء کو بطور ایک مؤثر جزو شامل تو کرلیں لیکن علماء بھی ہر أمر قانونی میں آزادانہ بحث و تمحیص اور اظہار رائے کی اجازت دیتے ہوئے اس کی رہنمائی کریں۔ ‘‘[1]
’خطبات اقبال‘ اور متجددین
علامہ مرحوم کے خطبات نے ہمارے ہاں موجود مغرب زدہ طبقے کے لیے ایک انجیل کا کام دیا۔ متجددین کی ایک جماعت نے خطبات کی عبارتوں کو بنیاد بناتے ہوئے نت نئے فلسفے پیش کر نا شروع کر دیے جس سے اسلامی معاشرے میں فکر ی انتشار اور بگاڑ کی راہیں ہموار ہونے لگیں۔ ماہنامہ ساحل کے مقالہ نگار لکھتے ہیں :
’’جدیدیت پسند طبقات کے لیے خطبات ’’جدیدیت کی انجیل‘‘ کا درجہ رکھتے تھے، لہٰذا خطبات میں حضرت اقبال رحمہ اللہ کے طالب علمانہ موقف سے اسلام، سنت،امت،علماء اور اجماع کو رد کرنے کے لیے موشگافیاں ڈھونڈی گئیں۔ حضرت علامہ اقبال رحمہ اللہ جو تمام زندگی خودکو دین کا طالب علم لکھتے سمجھتے رہے اور آخر تک علماء کرام سے مستقل اور مسلسل استفادہ فرماتے رہے انھیں جدیدیت پسند حلقوں نے دین کے بہت بڑے عالم کے روپ میں پیش کرنا شروع کیا تاکہ حضرت علامہ اقبال رحمہ اللہ کی عظیم الشان اور نادر الوجود شخصیت کے سحر سے اسلامی عقائد، عبادات، تاریخ اور امت کے اجماع کو تہس نہس کیا جاسکے۔ جدیدیت پسندوں کے پاس پوری اسلامی تاریخ سے جدیدیت پسندی کے حق میں دو چار دلائل اگر مل سکتے ہیں تو وہ معتزلہ کے افکار ونظریات ہیں یا خطبات اقبال کی عبارتیں۔ مغرب کے الحاد اور مغرب کی الحادی سائنس و ٹیکنالوجی کے جواز میں ان دو اہم حوالوں کے سوا جدیدیت پسندوں کے پاس اپنے حق میں کہنے کے لیے کچھ نہیں۔ ‘‘[2]
ہم یہاں یہ بات بھی واضح کرتے چلیں کہ اقبال مرحوم کے تصور اجتہاد سے ان کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال نے بہت گمراہیاں پھیلائی ہیں اور ان کے یہ بیانات کئی دفعہ اخبارات کی زینت بن چکے ہیں کہ اتنی شراب پی لینے میں کوئی حرج نہیں کہ جس سے نشہ نہ ہوتا ہو یا آج کے دور میں عورتوں کو بھی مردوں کے برابر وراثت میں حصہ ملنا چاہیے وغیرہ۔
ڈاکٹر یوسف گورایہ نے بھی اقبال کے خطبہ اجتہاد کو بنیاد بناتے ہوئے اپنا تصور اجتہاد پیش کیا ہے اور آمریت کے خلاف جمہوریت کے حق میں جدو جہد کو مذہبی تقدس عنایت فرمانے کی کوشش کی ہے۔ ہم آگے چل کر اس پر بحث کریں گے۔
’خطبات اقبال‘ علماء کی نظر میں
ڈاکٹر اقبال کے خطبات میں بالعموم اور خطبہ اجتہاد میں بالخصوص چند ایک ایسے افکار بھی تھے جو قرآن و سنت کی قطعی نصوص اور امت مسلمہ کے اجماعی عقائد سے متصادم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان خطبات کو پیش کرنے کے ساتھ ہی ڈاکٹر اقبال پرعلماء کی جانب سے استفسارات‘ اعتراضات‘ اشکالات اور فتاوی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اقبال مرحوم کے بعض خطوط سے بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس مقالے کے پڑھے جانے پر ان پر کفر کا فتوی بھی لگایا گیا تھا۔ جسٹس جاوید اقبال فرماتے ہیں :
’’اس سلسلے میں سب سے قوی شہادت تو خود علامہ اقبال رحمہ اللہ کا خط ہے جوانھوں نے مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی صاحب کو لکھا۔ ’’کچھ مدت ہوئی میں نے اجتہاد پر ایک انگریزی مضمون لکھا تھا جو یہاں ایک جلسے میں پڑھا گیا انشاء اللہ شائع بھی ہوگا۔ مگر بعض لوگوں نے مجھے کافر کہا۔ بہر حال اس تمام معاملے کے متعلق مفصل گفتگو ہوگی جب آپ لاہور تشریف لائیں گے۔ ۔ ۔ خطبہ اجتہاد کے پڑھے جانے کے ضمن میں دوسری شہادت روز گار فقیر سے ملتی ہے۔ ‘‘ممتاز حسن صاحب نے علامہ کو سب سے پہلے ۱۹۲۵ء میں دیکھا جب وہ ’’اسلام اور اجتہاد‘‘ کے موضوع پر لیکچر دینے کے لئے اسلامیہ کالج لاہور کے حبیبہ ہا ل میں تشریف لائے۔ تقریر کے دوران میں جب انھوں
|