کے نتیجے میں اجماع کا تصور باطل ہو جاتا ہے۔ زمانے سے ہماری مراد یہ ہے کہ جس وقت میں کوئی مسئلہ درپیش ہو اور اس وقت جو بھی مجتہدین موجود ہوں ‘ ان کے مابین اس مسئلے میں باہمی گفتگو ہوتو اس باہمی گفتگو کے وقت سے مراد زمانہ ہے۔ اور جس شخص کو وہ مسئلہ اس کے وقوع پذیر ہونے اور اس پر باہمی گفتگو کے بعد پہنچا تو وہ اہل زمانہ میں شامل نہ ہو گا۔ ۔ ۔ جان لو! اس تعریف کی طرف امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’الرسالہ‘ میں اشارہ کیا ہے۔ ‘‘
اجماع کی أقسام
علمائے أصول نے اجماع کی کئی ایک اعتبارات سے مختلف اقسام بیان کی ہیں۔ ان میں سے کئی ایک اقسام کا اجتماعی اجتہاد کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ ذیل میں ہم ان اقسام کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں۔
اجماع تام اور اجماع ناقص
اجماع کے اراکن اور شروط کے تمام اور ناقص ہونے کے اعتبار سے اس کی دو قسمیں ہیں : اجماع تام اوراجماع ناقص۔ اجماع تام کو اجماع کامل بھی کہتے ہیں۔ نصر محمود الکرنزلکھتے ہیں :
’’ التام: ھو ما تحقق رکنہ تاماً وھو اتفاق جمیع المجتھدین فی العصر الواحد دون استثناء مع تحقق سائر شروطہ سواء فی المجتھدین أو فی المسألۃ محل الإجماع أو عصر الإجماع والناقص: ما لم یکتمل فیہ رکن الإجماع بل اتفق أکثر المجتھدین وخالف الأقل أو اختل فیہ شرط من شروطہ المعتبرۃ وعلیہ فالإجماع التام ھوالکامل فی رکنہ وشروطہ ویکون قطعیاً فی دلالتہ وھو المراد عند الإطلاق والناقص ھو ما یطلق علیہ إجماعاً تساھلاً أو تجاوزا ویکون ظنی الدلالۃ و ینطبق علی سائر أنواع الإجماع المختلف فیہ کاتفاق الشیخین(أبی بکر و عمر)واتفاق العترۃ وإجماع أھل المدینۃ واتفاق المذاھب الأربعۃ و غیرھا۔ ‘‘[1]
’’اجماع تام سے مراد وہ اجماع ہے جس کے تمام ارکان پورے ہوں یعنی ایک ہی زمانے کے جمیع مجتہدین کابغیر کسی استثناء کے اتفاق‘ اجماع تام کہلاتا ہے جبکہ مجتہدین‘ مسئلہ زیر بحث اور زمانہ اجماع سے متعلق تمام شرائط بھی پوری ہو رہی ہوں۔ اور اجماع ناقص سے مراد وہ اجماع ہے جس کے اراکین مکمل نہ ہوں مثلاً اکثر مجتہدین کا اتفا ق ہو اور بعض کا اختلاف ہو یا اس میں اجماع کی معتبر شرائط میں سے کوئی شرط مفقود ہو۔ پس اس تعریف کے مطابق اجماع تام سے مراد وہ اجماع ہے جس کے ارکان اور شروط پوری ہوں اور وہ اپنی دلالت میں قطعی ہو۔ جب مطلق طور پر اجماع کا لفظ مستعمل ہو تو اس سے مراد اجماع تام ہوتا ہے۔ جبکہ اجماع ناقص وہ ہے جس پر تساہل یا تجاوز کرتے ہوئے اجماع کا لفظ بول دیا جاتاہے اور یہ ظنی الدلالۃ ہوتا ہے اور اجماع کی ان تمام قسموں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جو علماء کے مابین مختلف فیہ ہیں مثلاً شیخین کا اجماع‘ اہل بیت کا اجماع‘ اہل مدینہ کا اجماع‘ مذاہب اربعہ کا اتفاق وغیرہ۔
اس تقسیم کے مطابق اجتماعی اجتہاد کو ہم اجماع ناقص کا نام دے سکتے ہیں کیونکہ اس میں جمیع مجتہدین کا اجماع نہیں ہوتابلکہ مجتہدین کی ایک جماعت کا اتفاق ہوتا ہے۔
اجماع صریح اوراجماع سکوتی
مجتہدین کی رائے کی صراحت اور عدم صراحت کے اعتبار سے اجماع کی دو قسمیں ہیں۔ ڈاکٹروہبہ الزحیلی حفظہ اللہ اجماع صریح کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ فالإجماع الصریح ھو أن تتفق آراء المجتھدین بأقوالھم أو أفعالھم علی حکم فی مسألۃ معینۃ
|