انفرادی اجتہاد کی نسبت اس میں صحت کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے اکثر معاصر علماء کااجتماعی اجتہاد کے بارے میں یہی تأثر ہے کہ وہ اسے انفرادی اجتہاد پر فضیلت دیتے ہیں اور بعض حالات میں یہ اجماع کے حصول کا ایک ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ ‘‘
اجماع اور اجتماعی اجتہاد کے اس جوہری فرق کے باوجود بعض علماء اجتماعی اجتہاد کو اجماع کا مقام دیتے ہیں۔
اجتماعی اجتہاد ‘ اجماع ہے یا نہیں ؟
جمہور علماء کاکہنا ہے‘ اجتماعی اجتہاد نہ تو اجماع ہے اور نہ ہی اجماع کی مانند شرعی حجت۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں :
’’وأما اتفاق أکثر المجتھدین فلا ینعقد بہ الإجماع فی رأی جمھور الأصولیین۔ لأن عصمۃ الأمۃ عن الوقوع فی الخطأ إنما ثبت لکل الأمۃ لا لبعضھا ولا لأکثرھا۔ ‘‘[1]
’’جہاں تک مجتہدین کی اکثریت کے اتفاق کا معاملہ ہے توجمہور أصولیین کی رائے میں اس سے اجماع منعقد نہیں ہوتا۔ کیونکہ أمت کی عصمت بحثیت مجموعی ثابت ہے نہ کہ امت کے ایک حصے کی یا اکثریت کی۔ ‘‘
مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ کے بقول بھی اجتماعی اجتہاد کو اجماع کا درجہ دیناصریحاً زیادتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ وقد حدثت فی عھدنا عدۃ مجامع وھیئات للفتوی أنشئت للنظر الجماعی فی مسائل جدیدۃ بعضھا مستوی دولۃ واحدۃ مثل ھیئۃ کبار العلماء فی السعودیۃ‘ ومجلس الفکر الاسلامی فی باکستان ومجمع الفقہ الإسلامی فی الھند وأخری علی مستو ی عالمی مثل مجمع الفقہ الإسلامی الدولی المنبثق من منظمۃ المؤتمر الإسلامی والمجمع الفقھی المنبثق من رابطۃ العالم الاسلامی۔ وقد یقترح أن تعطی ھذہ المجامع صفۃ إلزامیۃ وأن تعتبر قراراتھا بمثابۃ إجماع المسلمین لکننا لا نؤید ھذا الرأی ولیس ذلک للحط من قدرھا العلمی فإننا نعتقد أن الجھد الذی بذلتہ ھذہ المجامع والھیئات جھد مشکور أنار للأمۃ الإسلامیۃ سبل الخیر فی کثیر من نواحی الحیاۃ ولکن الإسلام لا یعترف بنظام الکھنوت فی الاجتھاد الجماعی ولم تکن فی تاریخنا الزاھر جھۃ تستبد بالاجتھاد فی الأحکام الشرعیۃ وتسد أبوابہ للآخرین ولھذا السبب رفض الإمام مالک رحمہ اللّٰہ تعالیٰ أن یلزم الناس بقبول اجتھاداتہ۔ ‘‘[2]
’’ عصر حاضر میں جدید مسائل میں اجتماعی غورو فکر کے لیے کئی ایک اکیڈمیاں اور فتاوی کے ادارے وجود میں آ گئے ہیں۔ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جو ایک ہی ریاست کے علماء کو محیط ہیں جیسا کہ ہیئہ کبار العلماء‘ السعودیۃ اور اسلامی نظریاتی کونسل‘ پاکستان اور اسلامی فقہ اکیڈمی‘ انڈیا ہے۔ جبکہ بعض ادارے عالمی سطح کے ہیں جیسا کہ’ اسلامی کانفرنس کی تنظیم‘ کے تحت عالمی اسلامی فقہ اکیڈمی اور’ رابطہ عالم اسلامی‘ کے تحت فقہ اکیڈمی ہے۔ بعض اوقات یہ تجویز پیش کی جاتی ہے کہ ان اکیڈمیوں کی قراردادوں کو اجماع امت کا درجہ دیتے ہوئے انہیں لازمی حجت قرار دے دیا جائے لیکن ہم اس رائے کی تائید نہیں کرتے اور نہ ہی اس رائے کی کوئی علمی وقعت ہے۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان اکیڈمیوں اور اجتماعی اداروں کی کوششیں قابل قدر ہیں اور انہوں نے انسانی زندگی کے متفرق گوشوں میں امت مسلمہ کے لیے خیر کے رستوں کی نشاندہی کی ہے لیکن اسلام اجتماعی اجتہاد میں ہندوؤں کے نظام پر یقین نہیں رکھتا۔ علاوہ ازیں ہماری روشن تاریخ اسلامی میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ شریعت اسلامیہ کے احکامات میں اجتہاد کے عمل پرایک طبقہ قابض ہو جائے اور دوسروں کے لیے اس کے رستے بند کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے اس بات سے انکار کر دیا تھا کہ ان کے اجتہادات کو لوگوں پر زبردستی نافذ کیا جائے۔ ‘‘
|