Maktaba Wahhabi

411 - 368
تھے۔ جو سعید بن مسیب‘ سلیمان بن یسار‘ سالم بن عبداللہ‘ قاسم بن محمد‘ عروہ بن زبیر‘ عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ اور خارجہ بن زید رحمہم اللہ تھے۔ جب ان لوگوں کے پاس کوئی مسئلہ آتاتھاتو وہ اس میں مل جل کر غور کرتے اور کوئی بھی قاضی کسی نئے مسئلے میں اس وقت تک فیصلہ نہیں کرتا تھا جب تک کہ وہ ان کی مجلس میں اس مسئلے کو پیش نہ کر لیتا تھا۔ ‘‘ اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ کے زمانے میں بھی مدینہ میں فقہائے اہل مدینہ مختلف مسائل پر وقتاً فوقتاًمل جل کرمشاورت کرتے رہتے تھے۔ مشاورت کا یہ طریقہ فقہائے سبعہ کے زمانے سے چلا آ رہا تھا۔ شیخ أبو زہرہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’امام مالک رحمہ اللہ کی مدینہ میں مجلس علمی قائم تھی‘ اس میں بڑے بڑے علماء سے مذاکرے کرتے تھے ‘ خواہ مدینہ کے باشندہ ہوں یا وفد میں مدینہ آئے ہوں۔ ۔ ۔ فقہی مسائل کے مذاکرہ کے لیے چونکہ امام مالک رحمہ اللہ کو خاص توجہ تھی ‘ اس لیے فقہائے مدینہ کے لیے ان کی ایک مخصوص مجلس تھی‘ یا جو علماء مدینہ میں مقیم ہوں ‘ وہ شریک ہوتے تھے‘ لیکن عام کے لیے اس مجلس کا دروازہ کھلا ہوا نہیں تھا۔ مدارک میں لکھا ہو اہے: ابن المنذر رحمہ اللہ نے کہا‘ امام مالک رحمہ اللہ کا ایک حلقہ تھا کہ اس میں صرف فقہائے مدینہ کو بٹھاتے تھے‘ اسے کسی کے لیے وسیع نہ کرتے تھے‘ نہ اس میں کسی کو بلاتے تھے جو اس میں بیٹھ سکے جب تک کہ مجلس ختم نہ ہوجائے۔ ‘‘[1] امام أبوحنیفہ رحمہ اللہ کی بھی کوفہ میں ایک اجتماعی مجلس تھی‘ جس میں وہ بعض اوقات اپنے شاگردوں اور معاصر علماء کے ساتھ مل کر کوئی فتوی جاری کرتے تھے۔ شیخ عبد الجبار عبد الستار لکھتے ہیں : ’’وممن سار علی ھذہ الطریق فی الفتوی الجماعیۃ الإمام الأعظم أبو حنیفۃ النعمان فقد کان قد وضع مذھبہ شوری بینہ وبین تلامذتہ فعن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ قال کان أبو حنیفۃ إذا وردت علیہ المسألۃ قال: ما عندکم فیھا من الآثار؟ فإذا روینا الآثار وذکر ما عندہ نظر فإن کان الآثار فی أحد القولین اکثر أخذ بالأکثر فإذا تقاربت الآثار وتکافأت نظر فاختار۔ ‘‘[2] ’’اور اجتماعی فتوی کے اس طریقے کو جس نے اختیار کیا‘ ان میں امام أبوحنیفہ رحمہ اللہ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد اپنے اور شاگردوں کی باہمی مشاورت سے رکھی تھی۔ امام أبو یوسف رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جب امام صاحب رحمہ اللہ پر کوئی مسئلہ پیش ہوتا تو اپنے شاگردوں سے فرماتے: کیاتمہارے پاس اس مسئلے میں کوئی آثار ہیں ؟ پس جب ہم ان آثار کا تذکرہ کر دیتے تو اپنے آثار کا ذکر فرماتے اور پھر یہ دیکھتے کہ دواقوال میں سے کس قول کے حق میں زیادہ آثار ہیں اور اس کو اختیار فرمالیتے۔ پس اگر دونوں اقوال کے حق میں آثار برابر ہوتے تو پھر غور و فکر کے بعد ایک قول کو اختیار فرما لیتے۔ ‘‘ أہل حل و عقد کی صفات چونکہ اہل حل و عقد کی مجلس کا بنیادی مقصد امام کا انتخاب یا اجتہادہے لہذا ان حضرات کی بنیادی خصوصیات بھی ایسی ہونی چاہیے کہ جن سے ان کے لیے اپنے اس فریضے کی ادائیگی ممکن ہو۔ موسوعہ فقہیہ کے مقالہ نگار اہل حل و عقد کی صفات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’۱۔ العدالۃ الجامعۃ لشروطھا الواجبۃ فی الشھادات من الإسلام والعقل والبلوغ وعدم الفسق واکتمال المروئۃ۔ ب۔ العلم الذی یوصل بہ إلی معرفۃ من یستحق الإمامۃ علی الشروط المعتبرۃ فیھا۔ ج۔ الرأی والحکمۃ المؤدیان إلی اختیار من ھو للإمامۃ أصلح۔ د۔ أن یکون من ذوی الشوکۃ الذین یتبعھم الناس۔ ۔ ۔ ھ۔ الإخلاص والنصیحۃ للمسلمین۔ ‘‘[3]
Flag Counter