Maktaba Wahhabi

433 - 368
مسئلے میں اتفاق حاصل ہوجاتا تھا۔ بعض مسائل میں اگرچہ آج مدینہ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ دوسرے شہروں کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی آراء و فتاوی کوکتب تاریخ‘ حدیث اور فقہ سے معلوم کرناممکن نہ بھی ہوتو پھر بھی ان میں دعوی اجماع ممکن ہے بشرطیکہ وہ مسائل دین کے بنیادی أصولوں میں سے ہوں۔ مثلاًاگر کوئی عالم دین یہ کہے کہ’أقیموا الصلوۃ‘ میں فعل أمر استحباب کے لیے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت بھی اگرچہ نماز تو پڑھتی تھی لیکن اس کا پڑھنا مستحب ہے نہ کہ واجب۔ ایسے شخص کو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آیت مبارکہ میں فعل أمر سے مراد ’وجوب‘ ہے ‘ اور اس پرصحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے اگرچہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ ہرہر صحابی رضی اللہ عنہ کی رائے فقہی یاتاریخی ذخیرے کے حوالوں سے ثابت کر سکیں۔ اجماع کے موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ‘ ان کو دیکھ کر اندازہوتا ہے کہ علماء کے اجماع کے اکثر دعوے کسی نص کے فہم پر اجماع سے متعلق ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں أصول فقہ کی کتابوں میں اجماع کی جو تعریف بیان کی جاتی ہے ‘ اس کا بنیادی رکن یہ ہے کہ مجتہدین کے اتفاق کو اجماع کہتے ہیں۔ گویا کہ علمائے اہل سنت کے نزدیک اصل اجماع در اصل نص کے فہم پر ہوتا ہے‘ ورنہ تومجتہدین کی قید لگانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اگر محدثین کا کسی روایت کے بارے میں اتفاق ہو کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعیت سے ثابت ہے تو یہ بھی اجماع کی ایک قسم ہے لیکن فقہاء زیادہ تر نص کے فہم پر اجماع کی قسم کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ بعض علماء کی یہ عادت ہوتی ہے کہ بات بات پر اجماع کے دعوے نقل کر دیتے ہیں یا کوئی عالم دین اپنے علم کی حد تک کسی مسئلے میں اختلاف نہیں دیکھتا تو اس پر اجماع کا دعوی نقل کر دیتا ہے حالانکہ درحقیقت اس مسئلے میں علماء کا اجماع نہیں ہوتااور اس میں کئی ایک علماء سے اختلافات بھی مروی ہوتے ہیں۔ پس اس قدر احتیاط تو ضروری ہے کہ کسی جگہ اجماع کے دعوی کو دیکھ کر اجماع کا یقین نہ کر لیا جائے بلکہ اس کا ممکن حد تک تحقق بھی کرنا چاہیے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے ’مراتب الإجماع‘کے نام سے ایک کتاب لکھی ‘ جس میں انہوں نے سینکڑوں مسائل میں اجماع کا دعوی کیا جبکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس پر ’نقد مراتب الإجماع‘کے نام سے کتاب لکھی ‘ جس میں انہوں نے بیسیوں مسائل میں کہ جن میں امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اجماع کا دعوی کیا تھا‘ علماء کا اختلاف ثابت کیاہے۔ پس فی لواقع کسی مسئلے میں اجماع کا پایا جانا کچھ اورشیء ہے اور دعوی اجماع کچھ اور۔ بعض علماء نے اجماع کو ’منہاج‘ کا مسئلہ قرار دیا ہے یعنی مسلمانوں کے اہل علم کے معروف منہج استدلال سے نکل کر کوئی رائے پیش کرنا یا استنباط کرنا درحقیقت اجماع کی مخالفت ہے۔ ان علماء نے اپنے اس موقف کی دلیل میں یہ بیان کیا ہے کہ اجماع کے حق میں پیش کی جانے والی دلیل میں ’اتباع سبیل المؤمنین‘کے لفظ نمایاں ہیں جس میں ’سبیل‘ کا قریبی ترجمہ’ منہج‘ ہی بنتا ہے۔ اجماع اور اجتماعی اجتہاد کا فرق اجماع صریح یااجماع کامل اوراجتماعی اجتہاد میں کئی ایک اعتبارات سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ اس فرق کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ والفرق بین الإجماع والاجتھاد الجماعی: ھو أن الإجماع یقتضی اتفاق المجتھدین‘ أما الاجتھاد الجماعی فقد یصدر الحکم عن العلماء بالاتفاق أو بالأکثریۃ۔ والإجماع لا یکون إلا من المجتھدین أما الاجتھاد الجماعی فھو ثمرۃ وجود نخبۃ من العلماء قد یکون بعضھم مجتھدا اجتھادا جزئیاً وقد لا یکون۔ والإجماع حجۃ قطعیۃ أما الاجتھاد الجماعی فھو حجۃ ظنیۃ وأقرب مایکون فی ظھورہ للإجماع السکوتی۔ ‘‘[1] ’’اجتماعی اجتہاد اور اجماع میں فرق یہ ہے کہ اجماع مجتہدین کے اتفاق کا متقاضی ہے جبکہ اجتماعی اجتہاد میں علماء کے اتفاق یا ان کی
Flag Counter