Maktaba Wahhabi

345 - 368
کی اصطلاح موجود ہے۔ ان اصطلاحات میں موسوعۃ کی اصطلاحات کے مقام بحث کے بیان پر ہی اکتفاء کیا جاتا ہے۔ مثلاً قراض کی اصطلاح کی جگہ لکھا ہو گا: مضاربت کے لفظ کو دیکھیں۔ اس کے علاوہ اس اصطلاح کے تحت کوئی بیان موجود نہ ہوگاتا کہ تکرار لفظی نہ ہو۔ ‘‘ فقہی مسائل کے بیان کا طریقہ کار فقہی مسائل کے بیان میں ایک خاص طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے جس کو فقہی رجحانات کا نام دیا گیا ہے۔ ’نشرۃ تعریفیۃ‘کے مقالہ نگار اس طریقہ کار کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ ففی الطریقۃ المختارۃ تحصر الآراء المتعددۃ فی المسألۃ‘ متبوعۃ بما یندرج تحت کل اتجاہ من مذھب أو أکثر‘ وإذا کان فی المذھب الواحد أکثر من رأی فإنہ یتکرر ذکرہ بحسب تلک الروایات مع الاتجاھات المناسبۃ لھا۔ ویقدم الاتجاہ الذی ذھب إلیہ أکثر الفقھاء(الجمھور)إلا حیث تقضی منطقیۃ البیان بمخالفۃ ذلک لتقدیم البسیط علی ما فیہ ترکیب أو تفصیل‘ وکالبدء بما یتوقف علیہ فھم ما بعدہ۔ ۔ ۔ ولا یخفی ما فی ھذہ الطریقۃ من تحاشی التکرار فی ذکر کل مذھب علی حدۃ وتکرار المسألۃ وأدلتھا تبعاً لذلک۔ ‘‘[1] ’’اس منتخب طریقہ کار میں ایک ہی مسئلہ کے ذیل میں متعدد آراء کو بیان کیا جاتا ہے۔ ایک مسئلے کے تحت ہر فقہی رجحان کے ذیل میں ایک یا ایک سے زائد مذاہب کی آراء نقل کی جاتی ہیں۔ اگر ایک ہی مذہب میں ایک سے زائد آراء ہوں تو مناسب فقہی رجحانات کے ذیل میں ان مذہبی آراء کو مختلف روایات کے ساتھ نقل کیا جاتاہے۔ جمہور کے فقہی رجحان کو پہلے بیان کیا جاتا ہے سوائے اس کے کہ بیان کا منطقی أسلوب اس کے خلاف بیان کرنے کا متقاضی ہومثلاً کسی ایسے فقہی رجحان کو پہلے بیان کرنا جواپنی شرح و بسط اور تفصیل و ترکیب کی وجہ سے مقدم کیا گیا ہویا کسی ایسے فقہی رجحان کو مقدم کرنا جس پر مابعد کے رجحات کی تفہیم منحصر ہو۔ ۔ یہ بات واضح رہے کہ اس أسلوب بیان کے ذریعے ہر مذہب کے بیان سے پیداشدہ تکرار اورنفس مسئلہ اور تبعاًاس کے دلائل سے پیدا ہوانے والے تکرارسے بچا جا سکتا ہے۔ ‘‘ موسوعۃ کے مصادر و مراجع موسوعۃ کے مصادر و مراجع میں ان قدیم کتب فقہ کو بنیاد بنایا گیا ہے جو أصحاب مذہب کے ہاں بھی معروف ہوں۔ موسوعۃ فقہیہ کے مقالہ نگار لکھتے ہیں : ’’والمراجع المعتمد علیھا ھی القدیمۃ التی تداولھا أصحاب المذاھب وخدموھا بالشروح والحواشی وتعقوبھا باالإنکار والتقیید أو الإقرار والتسلیم والتی تعتبر تراثنا فقھیا یتمیز فی أسلوبہ وتالیفہ عما بعدہ من دراسات حدیثۃ۔ والحد الفاصل بینھما نھایۃ القرن الثالث عشر الھجری۔ ۔ ۔ وإلی غیر کتب الفقہ من کتب الشریعۃ عند الحاجۃ ولا سیما بالنسبۃ لفقہ السلف إلی کتب التفسیر وأحکام القرآن وکتب شروح السنۃ وأحادیث الأحکام۔ ھذا‘ وإن الاستمداد من المراجع الفقھیۃ لا یقتصر علی المطبوع منھا بل یشمل المخطوطات التی یتم الحصول علی صور(میکروفیلم)لھا من خزائنھا فی العالم۔ ‘‘[2] ’’موسوعۃ کے مصادر و مراجع قدیم کتب فقہ ہیں جو أصحاب مذہب کے مابین متداول ہیں۔ انہوں نے ان کتب فقہ کی شروحات و حواشی لکھ کر ان کی خدمت کی اور ان میں موجود اقوال کا یا تو انکار کیا یا مقید کیا یا اقرار و تسلیم کی راہ اختیار کی۔ یہ کتابیں ہمارا فقہی ورثہ ہے جو اپنے اسلوب تالیف کے پہلو سے جدیدتحقیقات سے مختلف ہے۔ قدیم و جدید اسلوب میں حد فاصل تیرہویں صدی ہجری کا أخیر
Flag Counter