فتاوی کے مصادر و ضوابط
مجلس نے اپنے فتاوی و تحقیقات کے مصادر کی فہرست کوبھی اپنے بنیادی دستور میں متعین کر دیاہے اور یہ وہی مصادر ومآخذ ہیں جو کہ عام اہل سنت کے ہاں معروف ہیں۔ مجلس کے بنیادی دستور کے آرٹیکل ٣٠میں ہے:
''١۔ مصادر التشریع الإسلامی المتفق علیھا بین جمھور الأمۃ وھی : القرآن، والسنۃ، والاجماع، والقیاس.٢۔ مصادر التشریع الاسلامی المختلف فیھا کالاستحسان، والمصلحۃ المرسلۃ، وسد الذرائع، والاستصحاب، والعرف، ومذھب الصحابی، وشرع من قبلنا، وذلک بشروطھا وضوابطھا المعروفۃ عند أھل العلم، ولا سیما إذا کان فی الأخذ بھا مصلحۃ للأمۃ.''[1]
’’١۔ جمہور امت مسلمہ کے ہاں جو مصادر شریعت متفق علیہ ہیں وہ قرآن، سنت، اجماع اور قیاس ہیں۔ (مجلس کے بنیادی مصادر بھی یہی ہیں )۔ ٢۔ (اس کے علاوہ )وہ مصادر کہ جن کی شرعی حیثیت اہل علم کے درمیان مختلف فیہ ہے مثلا استحسان، مصلحت مرسلہ، سد الذرائع، استصحاب، عرف، مذہب صحابی اور شرع من قبلنا وغیرہ، ان تمام مصادر سے استفادہ ان کی ان شروط اور ضوابط کے ساتھ کیا جائے گا جو اہل علم کے ہاں معروف ہیں، خاص طور پر جبکہ ان مصادرسے استفادہ کرنے میں امت کے لیے کوئی مصلحت پنہاں ہو۔ ‘‘
مجلس کا تحقیقی منہج
مجلس کے لیے فتوی جاری کرنے کے لیے جو منہج اختیار کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہے:
''١۔ إعتبار المذاھب الأربعۃ وغیرھا من مذاھب أھل العلم ثروۃ فقھیۃ عظیمۃ ویختار منھا ما صح دلیلہ وظھرت مصلحتہ.٢۔ مراعاۃ الاستدلال الصحیح فی الفتوی' والعزو إلی المصادر المعتمدۃ، ومعرفۃ الواقع ومراعاۃ التیسیر.٣۔ وجوب مراعاۃ مقاصد الشرع واجتناب الحیل المحظورۃ المنافیۃ لتحقیق المقاصد.''[2]
’’١۔ (کسی موضوع پر اجتماعی فتوی جاری کرتے وقت)عظیم فقہی ذخیرے میں مذاہب اربعہ اور ان کے علاوہ معروف اہل علم کے فتاوی کا اعتبار کیا جائے گا اور اس میں سے اس فتوی کو اختیار کیا جائے گا کہ جس کی دلیل صحیح ہو اور وہ مصلحتاً راجح ہو۔ ٢۔ فتوی جاری کرتے وقت صحیح استدلال، قابل اعتماد مصادر، فقہ الواقع کا تعارف اور آسانی و سہولت کو پیش نظر رکھاجائے گا۔ ٣۔ فتوی دیتے وقت مقاصد شرع کا خصوصی دھیان رکھاجائے گا اور ایسے ممنوع حیلوں سے اجتناب کیا جائے گا جو مقاصد شرع کے حصول میں رکاوٹ ہوں۔ ‘‘
مجلس کے منہج کو مزید واضح کرتے ہوئے جناب تنویر احمد لکھتے ہیں :
’’مجلس کا فتوی صادر کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ ایسے جدید مسائل جن سے مسلم معاشرے کی اکثریت کا واسطہ پڑتا ہے، یا جو اجتماعی اجتہاد کے متقاضی ہوتے ہیں، ان کے بارے میں تحقیقی مقالات لکھوائے جاتے ہیں۔ یہ مقالات عام طور پر مجلس کے فاضل اراکین لکھتے ہیں۔ یہ مقالات مجلس کے سالانہ اجلاس میں پیش کیے جاتے ہیں، جہاں ان پر مختلف جہتوں سے تفصیلی بحث کی جاتی ہے۔ اگر حاضرین مجلس مقالہ نگار کی رائے سے اتفاق کر لیں، یا بحث و مباحثہ کے بعد بننے والی رائے پر تمام ارکان کا اتفاق ہو جائے تو فتوی جاری کر دیا جاتا ہے۔ اختلاف رائے کی صورت میں دیکھا جاتا ہے کہ کم ازکم دو تہائی حاضر اراکین کسی ایک رائے پر متفق ہوں۔ اختلاف رائے رکھنے والے
|