سے شافعی فقہ کے زیادہ قریب ہے۔ اسی طرح أبو اللیث سمرقندی رحمہ اللہ مؤلف النوازل کے اس قول کو ترجیح دی گئی ہے کہ مال منقول میں بیع الوفاجائز ہے۔ جو کہ کتب ظاہر الروایۃ یعنی حنفی فقہ کے بنیادی أصولوں کے خلاف ہے۔ ‘‘[1]
مجلہ کے مؤلفین و مرتبین
حکومت نے أحمد جودت پاشا‘ جو محکمہ أحکام عدلیہ کے ناظم تھے‘ کی قیادت میں علمائے قانون کی ایک مجلس قائم کی۔ ابتداء میں اس مجلس کے مندرجہ ذیل سات علماء و ماہرین رکن بنائے گئے۔
1۔ أحمد جودت
2۔ سید خلیل
3۔ سیف الدین
4۔ سید أحمد خلوصی
5۔ سید أحمد حلمی
6۔ محمد أمین جندی
7۔ علاؤ الدین ابن ابن عابدین
کام کے دوران مجلس کے ارکان میں تبدیلیاں بھی ہوئیں۔ کچھ ارکان کو فارغ کیا گیا اور کچھ نئے اراکین کا اضافہ ہوا۔ مجلہ کے اختتام کے وقت درج ذیل اراکین اس کمیٹی کے ممبر تھے۔
1۔ أحمد جودت
2۔ سید أحمد خلوصی
3۔ سید أحمد حلمی
4۔ عمر حلمی
5۔ سیف الدین
6۔ سید خلیل
7۔ عبد الستار
اس مجلہ کی تدوین کی ابتداء ۱۳۸۵ھ میں ہوئی اور ۱۲۹۳ھ میں اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ یعنی اس کی تکمیل میں تقریباً آٹھ سال لگ گئے۔ بعد ازاں سلطان ترکی کے ایک فرمان کے ذریعے اس مجلہ کو حکومت عثمانیہ کے قانون مدنی کے طور پر شائع کیا گیالیکن اس کی حیثیت کسی لازمی قانون کی نہیں تھی۔ پروفیسر رفیع اللہ شہاب لکھتے ہیں :
’’یہ قانونی مجلس ۱۳۸۵ھ بمطابق ۱۸۶۹ء میں سال بھر قانون سازی کے کام میں مصروف رہی‘ اس کے بعد مجلہ کا مقدمہ اور باب اول مرتب کر کے شیخ الاسلام اور حکومت کے ارباب حل و عقد کے سامنے پیش کیا۔ اس میں ضروری اصلاحات اور ترمیمات بھی کی گئیں۔ پھر مجلس کے اراکین نے آپس میں کام اس طرح تقسیم کر لیاکہ مجلہ کا الگ الگ حصہ ان کے سپر دہو گیا۔ مگر صدر مجلس تمام أبواب کی تدوین میں شریک رہا۔ مجلہ کی تالیف ۱۲۹۳ھ بمطابق ۱۸۷۶ء میں مکمل ہو گئی تھی۔ چنانچہ اس طرح حکومت عثمانیہ کے قانون مدنی کی تدوین ہوئی جو سلطان ترکی کے ایک فرمان کے ذریعے مجلۃ الأحکام العدلیۃ کے نام سے شائع کیاگیا۔ ‘‘[2]
|