اجتماعی اجتہاد کے ادارے اور ان کا تنقیدی جائزہ
فصل أول
اسلامی فقہ اکیڈمی' انڈیا
اسلامی فقہ اکیڈمی' انڈیا کا قیام١٩٨٨ء میں عمل میں آیا۔ جون ١٩٩٠ء میں اس کا باضابطہ رجسٹریشن ہوا۔ اس کی مجلس اساسی(Trustees)ملک کی ١٧ معرو ف شخصیات و ممتاز اصحاب فقہ پر مشتمل ہے۔ عربی میں اسے مجمع الفقہ الإسلامی الھنداور انگریزی میں Islamic Fiqh 'Academy' Indiaکہتے ہیں۔
تاریخی پس منظر
برصغیر پاک و ہند میں علماء کے اجتماعی اجتہاد کی پہلی صورت مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں ترتیب دیے جانے والے 'فتاوی عالمگیری' کی شکل میں سامنے آئی جس پر ہم اس مقالہ کے باب پنجم کی فصل اول میں مفصل گفتگو کر چکے ہیں۔ اس کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ' مولاناابو الحسن محمد سجاد رحمہ اللہ اورمولانا مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ وغیرہ نے کچھ کوششیں کیں جس کے نتیجہ میں 'الحیلۃ الناجذۃ' اور 'انفساخ نکاح مسلم ایکٹ 'کی ترتیب عمل میں آئی۔ عصر حاضر میں ہندوستان میں تقریباًدومرتبہ' علماء کی ایک باقاعدہ جماعت کی صورت میں ' اجتماعی فتوی کے رجحان کی طرف پیش رفت ہوئی لیکن کئی وجوہات کی بنیاد پر یہ دونوں کوششیں ہی نتیجہ خیز اور دیرپاثابت نہ ہوئیں۔ اسلامی فقہ اکیڈمی کے جنرل سیکرٹری مولاناخالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ ان کوششوں کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ جمعیت علماء ہند کے ذمہ داروں میں ایک اہم علمی شخصیت حضرت مولانا محمد میاں صاحب دیوبندی رحمہ اللہ نے جمعیت کے تحت'ادارۃ المباحث الفقہیۃ ' قائم فرمایا' جس نے ابتدائی دور میں رویت ِہلال کے موضوع پر ایک اہم کانفرنس بھی منعقد کی' اور عام طور پر مولانا مرحوم اہم مسائل پر ملک کے مختلف دار الافتاء اور ملک کی اہم شخصیتوں کو استفتاء ارسال کرتے تھے ' اور اس کے جوابات طلب کیے جاتے تھے' اس طرح علماء میں ان مسائل پر غور کرنے کی ایک تحریک پیدا ہوتی تھی' لیکن اجتماعی نشست اور مناقشہ کا کوئی مستقل سلسلہ نہیں تھا'البتہ اسلامک فقہ اکیڈمی۔ انڈیا کے بعد اس ادارہ نے بھی دو تین فقہی اجتماعات منعقد کئے ہیں۔ دوسری کوشش حضرت مولانا سید أبوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی تحریک پر کے زیر اہتمام 'مجلس تحقیقات شرعیۃ'کے قیام(١٩٦٣ء)سے شروع ہوئی' مجلس نے ہندوستان کے حالات کے تناظر میں انشورنس'رویت ِ ہلال اور نس بندی کے مسائل پر نشستیں منعقد کیں اور بعض اہم فیصلے بھی کیے' مختلف نئے مسائل پر مجلس کے ذمہ داران حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلوی رحمہ اللہ اور حضرت مولانا محمد برہان الدین سنبھلی رحمہ اللہ نے قلم اٹھایا'لیکن بعد کو اجتماعی تبادلہ خیال کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ ‘‘[1]
اسلامی فقہ اکیڈمی کے قیام کی ضرورت و اہمیت
اس پس منظر میں علمائے ہند نے اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی کہ کوئی ایسا فعال اور منظم ادارہ ہونا چاہیے جو جدید تہذیب و تمدن اور احوال و ظروف کی صورت میں پیدا شدہ مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کر سکے۔ اسلامی فقہ اکیڈمی' انڈیاکے قیام کی ضرورت واہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے مولانا خالد سیف اللہ حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’یہ دونوں ادارے نئے مسائل کے حل میں فعال کردار اس لیے ادا نہیں کر پائے کہ دوسرے بڑے اداروں یا تنظیم کے ساتھ ان کی
|