عقد اور دوسری کے لیے مقتدر مجلس أہل حل و عقد کی اصطلاح استعمال کریں گے۔ پہلی قسم کو ہم مزید دو حصوں میں تقسیم کریں گے ایک سرکاری علمی مجلس اور دوسری غیر سرکاری علمی مجلس۔
مقتدر مجلس أہل حل و عقد اورمقتدر شوری میں فرق
شوری اور مجلس اہل حل و عقد میں بھی فرق ہے۔ لیکن یہ فرق ان کے دائرہ اجتہاد کے اعتبار سے ہوگا۔ مقتدر شوری تو ان مجتہد علماء‘ فقہاء اور ماہرین فن پر مشتمل ہو گی جو دینی اور دنیوی امور میں اجتہاد کریں اور پھر اس اجتہاد کی روشنی میں ریاست کے لیے کوئی قانون وضع کریں جبکہ مقتدر مجلس أہل حل و عقد کا کام صرف امام وقت کا انتخاب ہے۔ موسوعہ فقہیہ کے مقالہ نگار لکھتے ہیں :
’’ المستقری لحوادث التاریخ یجد أن ھناک فرقاً بین أھل الشوری وأھل الحل والعقد‘ إذ الصفۃ البارزۃ فی أھل الشوری’ھی العلم‘ لکن الصفۃ البارزۃ فی أھل الحل والعقد ھی ’الشوکۃ‘۔ ‘‘[1]
’’تاریخی حوادث کا استقرائی مطالعہ کرنے والے کے لیے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اہل شوری اور اہل حل و عقد کے مابین فرق ہے۔ کیونکہ اہل شوری میں اہم ترین صفت ’علم‘ ہوتی ہے جبکہ اہل حل و عقد کی نمایاں صفت شان و شوکت(دبدبہ)ہے۔ ‘‘
ڈاکٹرمحمد سعید رمضان البوطی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ کنا قد قسمنا فی أول ھذا البحث‘ مھمۃ الشوری‘ فی الشریعۃ الإسلامیۃ عموماً‘ إلی قسمین: القسم الأول: الشوری فی معرفۃ مختلف القضایا والأحکام الجزئیۃ۔ والقسم الثانی: الشوری فی اختیار إمام صالح للمسلمین۔ ‘‘[2]
’’ہم نے اس بحث کے آغاز میں یہ کہا تھا کہ شریعت اسلامیہ کی نظر میں شوری کی ذمہ داریاں دوقسم کی ہیں۔ پہلی قسم تو یہ ہے کہ مختلف واقعات اور جزوی احکام کاشرعی حکم معلوم کرنا اور دوسری قسم مسلمانوں کے لیے ایک صالح امام کومنتخب کرنا ہے۔ ‘‘
یہ تو مقتدر مجلس اہل حل و عقد کا وظیفہ ٹھہرا۔ اب ہم علمی مجلس اہل و عقدکی تاریخ و وظائف پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں۔
علمی مجلس أہل حل و عقد کی تاریخ
تاریخ اسلامی کے شروع کے ادوار میں ہی اجتماعی اجتہاد کے لیے فقہاء کی مجالس قائم ہوا کرتی تھیں۔ دور تابعین رحمہم اللہ میں مدینہ میں سات فقہاء کی ایک مجلس تھی جو فقہائے سبعہ کے نام سے معروف تھے۔ معروف مؤرخ ابن عساکر رحمہ اللہ متوفی ۵۷۱ھ ان کے بارے لکھتے ہیں :
’’أخبرنا أبو القاسم إسماعیل بن أحمد أنا محمد بن وھبۃ أنا محمد بن الحسین أنا عبد اللّٰہ بن جعفر ثنا یعقوب نا علی بن الحسن العسقلانی نا أبوعبد الرحمن عبد اللّٰہ بن المبارک قال کان فقھاء أھل المدینۃ الذین کانوا یصدرون عن رأیھم سبعۃ سعید بن المسیب وسلیمان بن یسار وسالم بن عبد اللّٰہ والقاسم بن محمد وعروۃ بن الزبیر وعبید اللّٰہ بن عبد اللّٰہ بن عتبۃ وخارجۃ بن زید وکانوا إذا جاء تھم المسئلۃ دخلوا فیہ جمیعاً فنظروا فیھا ولا یقضی القاضی حتی یرفع إلیھم فینظرون۔ ‘‘[3]
’’ہمیں أبو القاسم اسمعیل بن أحمد نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں محمدبن وہبہ نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں عبد اللہ بن جعفر نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں یعقوب نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ علی بن حسن عسقلانی نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ أبو عبد الرحمن عبد اللہ بن مبارک نے یہ کہتے ہوئے خبر دی: فقہائے اہل مدینہ کہ جو اپنی فقہی آراء کا اظہار کرتے تھے‘ سات
|