Maktaba Wahhabi

373 - 368
إنما ھو بذل الجھد فی معرفۃ الحکم الشرعی علی أساس القرآن والسنۃ۔ وذلک یتطلب مستوی رفیعاً من العلم بالتفسیر والحدیث والفقہ وأصولہ ولیس ذلک شأن کل من ھب ودب بل لایمکن یعاطیہ مما تخصص فی علوم أخری ولم یدرس علوم الشریعۃ من منابعھا الأصلیۃ۔ وإن أعضاء البارلیمان الیوم لا ینتخبون علی أساس علمھم بالدین وعلومہ فتفویض الاجتھاد إلیھم تحمیلھم ما لا یطیقون وتفویض لھذا الأمر الخطیر إلی غیر أھلہ۔ ‘‘[1] ’’ہمارے ہاں ایک اور گمراہ کن فکر جس کو بعض مفکرین نے اجاگر کیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اجتہاد کا حق پارلیمنٹ کو تفویض کر دیا جائے۔ ۔ ۔ اس فکر کے حاملین کا کہنا یہ ہے کہ جس پر پارلیمنٹ کا اتفاق ہو جائے وہ کسی بھی جدید مسئلے کو حل کرنے کا بہترین طریقہ ہے کیونکہ پارلیمنٹ کے اراکین کو عامۃ الناس اسی مقصد کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ یہ فکر ‘ معنی اجتہاد اور اس کے حقیقی مقتضیات سے جہالت یاتجاہل پر مبنی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں اجتہاد محض عقلی رائے یا فیصلے کا نام نہیں ہے بلکہ اجتہاد سے مراد قرآن و سنت کی بنیاد پر شرعی حکم معلوم کرنے کی جدوجہد ہے۔ اور اس مقام و مرتبے کے لیے تفسیر‘ حدیث‘ فقہ اور اصول فقہ وغیرہ جیسے علوم میں پختگی ضروری ہے اور ان علوم میں رسوخ ہر أیرے غیرے کو حاصل نہیں ہوتابلکہ وہ شخص جو دوسرے علوم میں تو ماہرہولیکن اس نے علوم شرعیہ کو ان کے بنیادی مصادر سے نہ سیکھا ہو‘اس کے لیے بھی ان علوم کی خدمت کرناممکن نہیں ہے۔ آج کل پارلیمنٹ کے اراکین اپنے دینی علم یا علوم شرعیہ میں رسوخ کی بنیاد پر منتخب نہیں کیے جاتے۔ پس پارلیمنٹ کے ا ن اراکین کو اجتہاد کا فریضہ سونپنا‘ ان کو تکلیف ما لا یطاق کا حامل بناناہے اور ایک اہم دینی فریضے کو نااہل لوگوں کے سپرد کرنا ہے۔ ‘‘ ’خطبات اقبال‘ کی زبان پر کچھ اعتراضات خطبات پر ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا ہے کہ ان کی زبان ایسی مشکل ہے کہ عوام تو کجا خواص بھی اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ماہنامہ’ ساحل‘ کے مقالہ نگار لکھتے ہیں : ’’یہ بھی افسانہ ہے کہ خطبات نئی نسل کی سمجھ میں نہیں آتے خود جاوید اقبال نے زندہ رود میں لکھا ہے کہ اس کی زبان عسیرالفہم ہے اور بار بار تعاقب کے باوجود کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ کئی مقامات پر انگریزی زبان میں استدلال ناقابل فہم ہے اور معانی صاف نہیں ہوتے۔ پروفیسر کرار حسین کا خیال ہے کہ بہت کم آدمیوں نے خطبات کو پڑھا ہوگا اس کتاب کو پڑھنا اور سمجھنا بہت مشکل ہے کہیں کہیں تو اپنے آپ کو ہی سمجھانا پڑتا ہے کہ ہاں اب سمجھ گئے آگے چلو۔ ‘‘[2] اس کاجواب عموماً یہ دیا جاتاہے کہ اقبال مرحوم نے خطبات عامۃ الناس کے لیے نہیں لکھے تھے بلکہ ان کے پیش نظر خواص کا ایک طبقہ تھا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ عوام الناس نے تو خطبات پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ خطبات کی تفہیم و تشریح کی طرف اگر کسی نے قدم اٹھایا ہے تو وہ خواص ہی کا حلقہ تھا اور خواص ہی نے خطبات کے عسیر الفہم ہونے کا شکوہ درج کروایا ہے۔ ماہنامہ ’ساحل‘ کے مقالہ نگار لکھتے ہیں : ’’ اس اعتراض کا عمومی جواب اقبال کی زبان میں یہ دیا جاتا ہے کہ خطبات کے مخاطب عام لوگ نہیں طبقہ خواص ہے۔ دوسرے لفظوں میں علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہونے والی اشرافیہ جو ٹائی کوٹ پہننے اور فراٹے سے انگریزی بولنے کو علم کا آخری مرتبہ سمجھتی تھی۔ لیکن خطبات کے ادق عسیر الفہم مباحث اس طبقہ اشرافیہ کی ذہنی سطح سے بھی بہت بلند تھے۔ لہٰذا خطبات کا دائرہ نہایت محدود ہوگیا۔ اس سے نہ جدید ذہن استفادہ کرسکا اور قدیم ذہن تو ان کو سمجھنے کی استعداد، اہلیت، علمیت رکھتا ہی نہیں تھا، وہ نہ اسے رد کرسکتا تھا نہ قبول نہ اس پر نقد کے قائل تھا۔ پھر خطبات آخر کس کے لیے لکھے گئے؟ یہ اہم ترین سوال ہے۔ اس کا جواب سہیل عمر نے عمدگی سے دیا ہے کہ اپنے لیے لکھے گئے تھے۔ ‘‘[3]
Flag Counter