ہے۔ ۔ ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’پس تم اپنی چال کوجمع کرو اور اپنے شرکاء کو پکارو‘۔ ۔ ۔ فراء رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اجماع سے مراد کسی کام کی تیاری اور اس کا عزم کرنا ہے۔ فرا ء رحمہ اللہ کا کہنا یہ بھی ہے کہ آیت قرآنی میں ’شرکاء کم‘سے پہلے ایک فعل محذوف ہے اور وہ ’وادعوا‘ہے۔ جبکہ أبو اسحاق رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ فراء رحمہ اللہ کا یہاں پر فعل محذوف ہونے کادعوی کرنا غلط ہے۔ اس محذوف کا نکالنا بے فائدہ ہے کیونکہ مشرکین تو اس آیت کے نزول سے پہلے بھی اپنے شرکاء کو پکار رہے تھے۔ أبو اسحاق رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ اس آیت کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ اپنی چال کے ساتھ اپنے شریکوں کو بھی جمع کر لو۔ ۔ ۔ فراء رحمہ اللہ نے کہا کہ جب تم نے منتشرلوگوں کو جمع کرنا ہو تو کہو گے : میں نے قوم کو جمع کیا اور وہ جمع ہو گئے جیسا کہ اللہ کافرمان ہے: ’یہ ایک ایسا دن ہے جس میں لوگ جمع کیے جائیں گے‘۔ ۔ ۔ اسی طرح عرب کہتے ہیں میں نے’نھب‘ جمع کیااور ’نھب‘سے مراد کسی قوم کے وہ اونٹ ہیں جن پر چور أچکے غارت گری کرتے ہوئے دھاوا بول دیں اور وہ اپنی چراگاہوں میں ادھر ادھر بکھر جائیں پس وہ انہیں ہر کونے سے اکٹھا کریں یہاں تک کہ وہ سب جمع ہو جائیں۔ ‘‘
امام راغب أصفہانی رحمہ اللہ متوفی ۵۰۲ھ لکھتے ہیں :
’’ الجمع ضم الشیء بتقریب بعضہ من بعض یقال جمعتہ فاجتمع وقال عز وجل ﴿ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ﴾ ﴿وَجَمَعَ فَاَوْعٰی ﴾ و﴿ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہ ﴾﴿ یَجْمَعُ بَیْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفْتَحُ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ﴾۔ ۔ ۔ وأجمعت کذا أکثر ما یقال فیما یکون جمعاً یتوصل إلیہ بالفکرۃ نحو﴿ فَاَجْمِعُوْٓا اَمْرَکُمْ وَ شُرَکَآئَ کُمْ ﴾۔ ۔ ۔ وقال تعالیٰ ﴿ فَاَجْمِعُوْا کَیْدَکُمْ ﴾ ویقال أجمع المسلمون علی کذا اجتمعت آراؤھم علیہ۔ ‘‘[1]
’’ ’جمع‘ سے مراد مختلف اشیاء کو ایک دوسرے کے قریب کرتے ہوئے آپس میں ان کو ملا دینا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے:میں نے اس کوجمع کیا تو وہ جمع ہو گیا۔ اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:’اور سورج اور چاند کو جمع کیا جائے گا‘۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہے: ’اس نے مال جمع کیا اور اس کو گن کرمحفوظ رکھا‘۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہے: ’اس نے مال کو جمع کیا اور اس کو گن گن کر رکھا ‘۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہے:’اللہ تعالیٰ ہم سب کو(قیامت کے دن)جمع کرے گا پھر وہ ہمارے مابین حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے گا‘۔ ۔ ۔ باب افعال سے یہ لفظ اکثر و بیشتر ان چیزوں کے جمع کرنے کے بارے میں آتا ہے‘ جو فکر سے متعلق ہوں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’تم اپنی چال کو اپنے شریکوں سمیت جمع کر لو‘۔ ۔ ۔ اسی طرح اللہ نے فرمایا: ’تم اپنی چال کو جمع کر لو‘۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے یعنی اس مسئلے میں ان کی آراء متفق ہیں۔ ‘‘
علامہ سید مرتضی الزبیدی رحمہ اللہ متوفی ۱۲۰۵ھ لکھتے ہیں :
’’ والإجماع أی إجماع الأمۃ الاتفاق یقال ھذا أمر مجمع علیہ أی متفق علیہ۔ ‘‘[2]
’’اجماع سے اجماع امت ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے’أمر مجمع علیہ‘ یعنی یہ معاملہ متفق علیہ ہے۔ ‘‘
اجماع کی اصطلاحی تعریف
مختلف علماء نے کچھ لفظی اختلافات کے ساتھ اجماع کی تعریف متنوع عبارتوں میں بیان کی ہے۔ امام أبو حامد غزالی رحمہ اللہ متوفی ۵۰۵ھ فرماتے ہیں :
’’ أما تفھیم لفظ الإجماع فإنما نعنی بہ اتفاق أمۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاصۃ علی أمر من الأمور الدینیۃ۔ ‘‘[3]
’’ جہاں تک اجماع کے لفظ کے مفہوم کا معاملہ ہے تو اس سے ہماری مراد امت محمدیہ کا اتفاق ہے‘ خاص طور پرجبکہ وہ امور دینیہ میں سے
|