Maktaba Wahhabi

408 - 368
پس اہل حل و عقد سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو کھولنے اور باندھنے والے ہیں یعنی جو أصحاب اقتدار و اختیار ہیں۔ جن کے ہاتھ میں عامۃ الناس کے انتظامی اور ملک و ملت کے سیاسی امور ہوں۔ ’أہل حل و عقد‘ کی اصطلاحی تعریف اہل حل و عقد کی اصطلاح کو دو قسم کے علوم میں زیادہ تر استعمال کیاگیا ہے۔ ایک تو علم أصول فقہ اور دوسرا سیاسہ شرعیہ میں۔ دونوں علوم میں یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ علم أصول فقہ میں ’أہل حل و عقد‘ کا معنی و مفہوم بعض أصولیین اجماع کی تعریف میں اہل حل و عقد کی اصطلاح استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’والحق فی ذلک أن یقال الإجماع عبارۃ عن اتفاق جملۃ أھل الحل والعقد من أمۃ محمد فی عصر من الأعصار علی حکم واقعۃ من الوقائع۔ ‘‘[1] ’’حق بات تویہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ اجماع سے مراد ایک زمانے میں موجود امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جمیع اہل حل و عقد کا کسی مسئلے کے شرعی حکم پر اتفا ق کر لیناہے۔ ‘‘ امام رازی رحمہ اللہ اجماع کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ أما فی اصطلاح العلماء فھو عبارۃ عن اتفاق أھل الحل والعقد من أمۃ محمد علی أمر من الأمور۔ ‘‘[2] ’’علماء کی اصطلاح میں اجماع سے مراد کسی مسئلے میں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جمیع اہل حل و عقد کا اتفا ق ہے۔ ‘‘ أصولیین جب اہل حل و عقد کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد علمائے مجتہدین ہوتی ہے کیونکہ اجماع مجتہد علماء کا ہی معتبر ہے۔ امام رازی رحمہ اللہ اجماع کی تعریف بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’ ونعنی بأھل الحل والعقد المجتھدین فی الأحکام الشرعیۃ۔ ‘‘[3] ’’اہل حل و عقد سے ہماری مرادأحکام شرعیہ میں اجتہاد کرنے والے ہیں۔ ‘‘ امام بیضاوی رحمہ اللہ اجماع کی تعریف میں لکھتے ہیں : ’’ وھو اتفاق أھل الحل والعقد من أمۃ محمد علی أمر من الأمور۔ ‘‘[4] ’’اجماع سے مراد کسی مسئلے میں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جمیع اہل حل و عقد کا اتفا ق ہے۔ ‘‘ امام علی السبکی رحمہ اللہ أہل حل و عقد کے لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ وقولہ أھل الحل والعقد المراد بہ المجتھدین۔ ‘‘[5] ’’امام بیضاوی رحمہ اللہ کے قول اہل حل و عقد سے مراد مجتہدین امت ہیں۔ ‘‘ علم أصول فقہ کے بعد اب ہم سیاست شرعیہ میں ’اہل حل و عقد‘ کا مفہوم سمجھیں گے۔
Flag Counter