Maktaba Wahhabi

371 - 368
سید صاحب‘ ڈاکٹر اقبال کی طرف سے پارلیمنٹ کے اجتہاد کو اجماع کے قائمقام قرار دینے پر بھی سخت نقد کرتے ہیں اور اس کو اقبال مرحوم کی ایک بہت بڑی غلطی قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ اجماع ِ جمہور کو جمہوریت اور پارلیمنٹ کی اصطلاحات کے مساوی قرار دینا علوم اسلامیہ کی تاریخ سے کامل ناواقفیت کا اظہار ہے۔ یہ بھی خلط مبحث ہے ‘ اسلام میں اجماع جہلاء کا نہیں ہے۔ اجماع علماء کا معتبر ہے عوام کا نہیں۔ یہ علماء کون لوگ ہوں گے‘ اس کے بھی اصول طے ہیں۔ ۔ ۔ اجماع کو لادینی سیاسی نظام کے جمہوری ادارے پارلیمنٹ کا متبادل سمجھنا اقبال مرحوم کی بہت بڑی غلطی تھی۔ آج وہ زندہ ہوتے تو اس خیال سے رجوع کرتے۔ ‘‘[1] ایک اور مقام پر سید صاحب ‘ اقبال مرحوم کے اس نقطہ نظر کے تانے بانے کو مغربی فکر سے جوڑتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ یہ باطل نظریات مغرب کی کن اصطلاحات اور تصورات کے غلط فہم کی صورت میں فکر اقبال میں در آئے ہیں۔ سید صاحب لکھتے ہیں : ’’مغرب سے مغلوبیت نے اقبال مرحوم کو یہ باطل خیال پیش کرنے پر مجبور کیا کہ اسلامی قانون کی روح جمہوری ہے‘ جمہور اور اجماع کی اصطلاحات سے یہ نتیجہ اخذ کر بیٹھے کہ نئے مسائل پیش آنے پر جمہوری طریقے سے لوگوں کی رائے لے کر(ریفرنڈم وغیرہ)قانون وضع کر لیا جائے گا اور غالبا اسمبلی ان کی نظر میں اجماع اور جمہور کا متبادل تھا۔ فقہ اسلامی میں جمہور سے کیا عوام الناس مراد ہیں ‘ اقبال مرحو م اس اصول سے تو آگاہ ہو ں گے لیکن اس کی تفہیم انہوں نے مغربی منہاج میں کی تو یہ گمراہی خود بخود پیدا ہو گئی اور اقبال مرحوم کے ہاں ایسی بے شمار گمراہیاں ملیں گی۔ ‘‘[2] سید صاحب کے ان امالی کی اشاعت پر ماہرین اقبالیات کی طرف سے ایک اعتراض یہ بھی وارد کیا گیاہے کہ اگر یہ امالی واقعتاً سید صاحب کے ہی ہیں تو سید صاحب نے ڈاکٹر اقبال کی زندگی میں ہی ان گمراہیوں کا اظہار کیوں نہیں کیا۔ ڈاکٹر غلام محمد کے امالی میں سید صاحب اس بات کی بھی وضاحت کرتے ہیں کہ انہوں نے اقبال کی زندگی ہی میں اپنے رسالے معارف یا کسی کتاب میں اقبال کے ان گمراہ کن نظریات کے خلاف کیوں نہ کچھ لکھا یا شائع کیا تھا۔ سید صاحب فرماتے ہیں : ’’دینی علوم سے کامل بے خبری اور اسلامی فقہ کے عظیم الشان ذخیرے اور علم التفسیر اور علم الحدیث کے اصولوں سے عدم واقفیت کے باعث اقبال مرحوم کے یہاں گمراہیوں کا ایک طویل سلسلہ در آتا ہے‘ معارف میں عموماً ان گمراہیوں پر سکوت کا ایک سبب یہ تھا کہ اقبال مرحوم کی ذات سے اور ان کے شاعرانہ کمالات سے ملت کو جو فائدہ پہنچ رہاہے‘ اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ مولانا ماجد تو اس معاملے میں بہت غیرت مند تھے اور چاہتے تھے کہ اقبال مرحوم کے کفر کے خلاف جوکچھ لاوا ان کے دل میں ہے کتابی صورت میں تحریر کر دیں لیکن ان کو قائل کرنا پڑ اکہ صبر سے کام لیں۔ اقبال مرحوم ملت کا اثاثہ ہیں ‘ ان کی شاعری نے زخموں کی رفو گری کی۔ کہیں ملت سے اس کا روحانی سہارا چھن نہ پائے بلکہ انہیں آمادہ کیا کہ وہ تحریریں بھی شائع نہ کریں ‘ جو اقبال مرحوم کے نام جارحانہ لب و لہجہ میں لکھی گئی تھیں۔ ‘‘[3] أمالی غلام محمدکی صحت ِ سند اور ماہرین اقبال کی تحقیق ماہنامہ’ساحل‘ کراچی نے جون‘ ستمبر‘ اکتوبر اور نومبر ۲۰۰۶ء کے شماروں میں ’خطبات اقبال‘ کا ایک تحقیقی و تجزیاتی جائزہ پیش فرمایاہے۔ ماہنامہ ساحل کے اس مفصل نقد میں خطبات اقبال کے حوالے سے سینکڑوں اعتراضات اور استفسارات پیش کیے گئے۔ اقبال اکیڈمی‘ لاہور کی جانب سے اگرچہ اس نقد کے بعض پہلوؤں کے جواب بھی دیے گئے ہیں لیکن یہ جواب کئی اعتبارات سے کمزوری اور نقص کا پہلو لیے ہوئے ہیں۔ اکیڈمی کی طرف سے کیے جانے والے دفاع میں ’ساحل‘ کے اکثرو بیشتر اعتراضات کا جواب ہی نہیں دیا گیااور جن اشکالات
Flag Counter