فصل سوم
اجتماعی اجتہاد بذریعہ مجلس أہل حل و عقد
حل و عقد ایک مرکب لفظ ہے جو ’حل‘ اور ’عقد‘ سے مل کر بناہے۔ یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ ’حل‘ کا مادہ’ح۔ ل۔ ل‘ ہے اور اس مادے سے بننے والے عربی الفاظ کا بنیادی معنی ’کھولنا‘ بنتا ہے‘ جبکہ ’ع۔ ق۔ د‘ کے مادے سے وارد ہونے والے الفاظ کا بنیادی معنی ’باندھنا‘ بنتا ہے۔ ذیل میں ہم أئمہ لغت کے ہاں اس لفظ کا لغوی معنی بیان کر رہے ہیں۔
’حل و عقد ‘کی لغوی تعریف
علامہ سید محمد مرتضی الزبیدی رحمہ اللہ متوفی ۱۲۰۵ھ’حل‘ کا بنیادی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ حل المکان حل بہ یَحُلُّ ویَحِلُّ۔ ۔ ۔ وقال الراغب أصل الحل حل العقدۃ ومنہ ﴿وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ ﴾۔ ‘‘[1]
’’ ’حل المکان‘سے مراد کسی جگہ اترنا ہے اور اس کا مضارع باب’نصر‘ اور باب’ضرب‘ سے آتا ہے۔ ۔ ۔ امام راغب رحمہ اللہ نے کہا ہے:’حل‘ کا بنیادی معنی ’گرہ کھولنا‘ ہے جیسا کہ ارشادی باری تعالیٰ ہے: اور تو گرہ کھول دے میری زبان کی۔ ‘‘
علامہ ابن دریدالأزدی رحمہ اللہ متوفی ۳۲۱ھ لکھتے ہیں :
’’ حل العقد یحلہ حلاً ‘ وکل جامد أذبتہ فقد حللتہ وحل بالمکان حلولاً‘ إذا نزل بہ۔ ‘‘ [2]
’’اس نے گرہ کھولی اور وہ اس کو کھولتا ہے۔ اس کا مصدر’حلا ً‘ آتا ہے۔ ہر جامد چیز کہ جس کو تو پگھلا دے‘ اس کو تو نے کھول دیا ہے۔ اسی طرح ’حل بالمکان‘کا لفظ کسی جگہ اترنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے او ر اس کا مصدر’حلولاً‘ آتا ہے۔ ‘‘
محمد بن عبد القادر الرازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’حل العقدۃ فتحھا فانحلت وبابہ رد۔ ‘‘[3]
’’ ’حل العقدۃ‘کا معنی نے اس نے گرہ کھول دی ہے۔ پس وہ کھل گئی اور اس کاباب’نصر‘ ہے۔ ‘‘
عقد کا لفظ’حل‘کا متضاد ہے۔ علامہ زبیدی رحمہ اللہ ’عقد‘کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ عقد الحبل والبیع والعھد یعقِدُہ عقداً فانعقد: شدہ والذی صرح بہ أئمۃ الاشتقاق: أن أصل العقد نقیض الحل۔ ‘‘[4]
’’اس نے رسی‘ بیع یا عہد باندھا۔ اس کا باب’ضرب‘ ہے اور مصدر’عقداً‘ آتا ہے۔ پس وہ بندھ گئی۔ یعنی اس نے اس کو باندھا۔ أئمہ اشتقاق نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ ’عقد‘ کابنیادی معنی’حل‘ کا متضاد ہے۔ ‘‘
محمد بن عبد القادر الرازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’عقد الحبل وابیع والعھد فانعقد۔ ‘‘[5]
’’اس نے رسی‘ بیع یا عہد کو باندھا ‘پس وہ بندھ گیا۔ ‘‘
|