Maktaba Wahhabi

363 - 368
قافلے کو جنم دیا جو ازل سے ابد تک کے سب سے بڑے انسان محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں کھجور کی چٹائیوں پر سوتا تھا، اینٹوں کے تکیے بناتا اور فرش پر لیٹ کر عرش سے ہم کلام ہوتا تھا۔ ان کی پوری شاعری اسی قافلے کی حکایت اور جستجو کا سفر ہے غزل ہو یا نظم، مثنوی ہو یا قطعہ۔ اقبال کی شاعری میں تکبیریں سانس لے رہی ہیں اور مصرعوں سے ان حدی خوانوں کے لہجے و نغمے سنائی دے رہے ہیں جن کا نورانی ذکر اب تاریخ کی زینت ہے۔ اس مقام پر ان کی آواز کسی شاعر یا فرد کی آواز بننے کے بجائے ملت اسلامیہ کی اجتماعی آواز بن جاتی ہے اور اس آواز کی بازگشت، قرطبہ سے نینوا تک، فاران سے اصفہان تک، وسط ایشیا سے کشمیر تک، مغرب کی وادیوں سے مغرب اقصیٰ کی بلندیوں تک چلی جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے مغرب اور مشرق کے تمام بڑے شعراء اور فلسفیوں سے استفادہ کیا لیکن ان کا رنگ اور آہنگ ان سب سے مختلف ہے۔ ان کی شاعری ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں شعر قال سے نکل کر حال ہوجاتا ہے اور شاعر کی زبان کا آہنگ،اس کا انداز بیاں اور پیرایۂ تعبیر سب کچھ بدل کر الہامی رنگ اختیار کرلیتا ہے۔ ‘‘[1] اقبال مرحوم نے شاعری کے علاوہ نثر میں بھی اپنی علمی آراء پیش کی ہیں۔ علامہ کی نثر میں معروف ترین کتاب ’ خطبات اقبال‘ ہے۔ یہ کتاب علامہ کے چند خطبات پر مشتمل ہے جو اقبال مرحوم نے بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں تیار کیے تھے۔ اقبال مرحوم نے اسی دہائی میں مختلف اوقات میں مدراس‘ علی گڑھ اورلاہور وغیرہ میں اپنے ان خطبات کو پڑھ کر سنایا۔ علامہ اقبال رحمہم اللہ کے ان خطبات میں ایک خطبہ'The Principle of Movement in the Structure of Islam'یعنی ’اسلام میں اصول حرکت کا تصور ‘کے نام سے ہے۔ مترجمین خطبات نے اس خطبے کو ’اجتہاد‘ کا عنوان دیا ہے کیونکہ اقبال مرحوم نے اس خطبے میں ’اجتہاد‘ سے متعلق اپنے بعض تصورات پیش کیے ہیں۔ اقبال مرحوم نے خطبہ’اجتہاد‘ کب لکھا۔ اس کے بارے میں جسٹس جاوید اقبال فرماتے ہیں : ’’سید عبدالواحد معینی نے خطبات کا سن ِ تحریر ۱۹۲۰ء بتلایا ہے۔ جب کہ رشید احمد صدیقی کے نزدیک یہ ۱۹۲۵ء میں لکھا گیا۔ ۔ ۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے یہ مقالہ کئی سال میں لکھا۔ اس کی ایک شہادت علامہ اقبال رحمہ اللہ کا ایک خط ہے جو انھوں نے اپنے دوست سعید الدین جعفری کو ۳ اگست ۱۹۲۲ء کولکھا۔ اس میں فرماتے ہیں۔ آج کل کچہری بند ہے میں ایک مفصل مضمون انگریزی میں لکھ رہا ہوں جس کا عنوان ہے The Idea of Ijtihadامید ہے آپ اسے پڑھ کر خوش ہوں گے۔ اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۲۲ء میں علامہ اقبال رحمہ اللہ اس مقالہ کی تیاری میں مصروف تھے۔ ‘‘ [2] ماہنامہ ساحل کی تحقیق کے مطابق ۱۹۲۰ء میں مقالے پر کام شروع ہوا۔ ۱۹۲۲ء میں اقبال مرحوم نے یہ خطبہ لکھنا شروع کیا اور تقریباً ۱۹۲۴ء تک اقبال مرحوم کے ہاں مقالہ’اجتہاد‘ کا کام مکمل ہو چکا تھا۔ یکم دسمبر ۱۹۲۴ء کو یہ مقالہ اسلامیہ کالج لاہور میں پڑھ کر سنایا گیااور اس خطبے کے پڑھے جانے پر بعض علماء نے اقبال مرحوم پر کفر کے فتوے بھی لگائے۔ جسٹس جاوید اقبال فرماتے ہیں : ’’ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے یہ مقالہ لاہور کے ایک اجلاس میں پڑھا۔ زمیندار لاہور کی ۱۵؍دسمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں صفحہ تین پر ایک اشتہار شائع ہوا جس کی عبارت مندرجہ ذیل ہے’’علامہ اقبال رحمہ اللہ کا خطبہ، الاجتھاد فی الاسلام‘‘آج شنبہ مورخہ۱؍دسمبر کی شام ساڑھے چھ بجے اسلامیہ کالج کے حبیبہ ہال میں علامہ سر شیخ محمداقبال مدظلہ العالی ایک نہایت اہم مضمون پڑھ کر سنائیں گے۔ مضمون کا موضوع الاجتہادفی الاسلام ہوگا۔ جلسہ کی صدارت کے لئے شیخ عبدالقادرنائب صدر مجلس وضع قوانین پنجاب کا نام تجویز کیا گیا ہے۔ مضمون انگریزی زبان میں سنایا جائے گا۔ یہ مقالہ پڑھا گیا اور اس پر شدید رد عمل ہوا۔ مولوی دیدار علی نے علامہ کے کفر کا فتوی جاری کیا۔ ‘‘ [3] علامہ اقبال کا نظریہ اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ اقبال مرحوم نے اپنے’خطبہ اجتہاد‘ میں پارلیمنٹ کے ذریعے اجتہاد کرنے کا نقطہ نظر پیش فرمایاہے۔ علامہ کے نظریہ اجتہاد بذریعہ
Flag Counter