پارلیمنٹ پر بحث سے پہلے ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ اقبال مرحوم کے ہاں اجتہاد کی جو تعریف یا مفہوم پایا جاتا ہے‘ اس کی طرف اختصار کے ساتھ اشارہ کر دیں۔ اقبال مرحوم کے مطبوع خطبہ اجتہاد میں ’اجتہاد‘ کی درج ذیل تعریف ہمیں ملتی ہے۔ اقبال مرحوم فرماتے ہیں :
'' The word literally means to exert. In islamic terminology of Islamic Law it means to exert with a view to form an independent judgement on a legal question.'' [1]
’’ لغوی اعتبار سے تو اجتہاد کے معنی ہیں کوشش کرنا‘ لیکن فقہ اسلامی کی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے وہ کوشش جو کسی قانونی مسئلے میں آزادانہ رائے قائم کرنے کے لیے کی جائے۔ ‘‘[2]
اقبال مرحوم کی اس تعریف پر ہم اپنے اس مقالے کے پہلے باب میں مفصل گفتگو کر چکے ہیں۔ ہمارے نقطہ نظر کے مطابق یہ تعریف درست نہیں ہے اور کئی ایک گمراہ کن افکار کی بنیاد بنتی ہے۔ اجتہاد‘کسی مسئلے کے بارے‘ قرآن و سنت کی وسعتوں میں ‘ حکم شرعی کی تلاش کا نام ہے نہ کہ قرآن و سنت کو نظر انداز کرتے ہوئے آزادانہ رائے قائم کرنے کا‘جیسا کہ اقبال مرحوم کا خیال ہے۔ غالباً اسی تعریف کا اثر تھا کہ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ کا نظریہ پیش کیاکیونکہ پارلیمنٹ میں اکثر وبیشتر ایسے افراد ہی منتخب ہو کر جاتے ہیں جو قرآن و سنت سے ناواقف ہوں۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم کا کہنا یہ بھی تھا کہ اگر کسی مسلمان ملک کی پارلیمنٹ اتفاق رائے سے کسی مسئلے میں اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کرتی ہے تو اسمبلی کا وہ فیصلہ اجماع کے قائمقام ہو گا۔ اقبال مرحوم فرماتے ہیں :
'' The Ijma. The third source of Muhammadan Law is Ijma' which is' in my opinion' perhaps the most important legal notion in islam' while invoking great academic dicussions in early Islam' remained practically a mere idea' and rarely assumed the form of a pemanent institution in any muhammadan country...It is' however' extremely satisfactory to note that the pressure of new world-forces and the political experience of European nations are impressing on the mind of modren Islam the value and possibilities of the idea of Ijma. The growth of republican spirit and the gradual formation of legislative assemblies in Muslim lands constitute a great step in advance.The transfer of the power of ijtihad from individual representatives of schools to a Muslim legislative assembly which' in view of the growth of opposing sects' is the only possible form Ijma can take in modren times' will secure constributions to legal dicussions from laymen who happen to possess a keen insight into affairs.In this way alone can we stir into activity the dormant spirit of life in our legal system' and give it an evolutionary outlook. In India' however' difficulities are likely to arise for it doubtful whether a non-Muslim legislative assembly can excercise the power of Ijtihad.''[3]
’’اجماع: فقہ اسلامی کا تیسرا مأخذ اجماع ہے اور میرے نزدیک اسلام کے قانونی تصورات میں سے زیادہ اہم‘لیکن عجیب بات ہے کہ اس نہایت ہی اہم تصور پراگرچہ صدر اسلام میں نظری اعتبار سے تو خوب خوب بحثیں ہوتی رہیں ‘ لیکن عملاً اس کی حیثیت ایک خیال سے آگے نہیں بڑھی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ممالک اسلامیہ میں یہ تصور ایک مستقل ادارے کی صورت اختیار کر لیتا۔ ۔ ۔ بہر حال اس وقت دنیا میں جونئی نئی قوتیں ابھر رہی ہیں ‘ کچھ ان کے اور کچھ مغربی اقوام کے سیاسی تجربات کے پیش نظر مسلمانوں کے ذہن میں بھی اجماع کی قدر و قیمت اور اس کے مخفی امکانات کا شعور پیدا ہو رہا ہے۔ بلاد اسلامیہ میں جمہوری روح کا نشوونما اور قانون سازمجالس کا بتدریج قیام ایک بڑا ترقی زا قدم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مذاہب أربعہ کے نمائندے جو سردست فرداً فرداً اجتہاد کا حق رکھتے ہیں ‘ اپنا یہ حق مجالس تشریعی کو منتقل کر دیں گے۔ یوں بھی مسلمان چونکہ متعدد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اس لیے ممکن بھی ہے تو اس وقت اجماع کی یہی شکل۔ مزید بر آں غیر علماء بھی جو ان امور میں بڑی گہری نظر رکھتے ہیں ‘ اس میں حصہ لے سکیں گے۔ میرے نزدیک یہی ایک طریقہ ہے جس سے کام لے کر ہم زندگی کی
|