Maktaba Wahhabi

365 - 368
اس روح کو جو ہمارے نظامات فقہ میں خوابیدہ ہے‘ از سر نو بیدار کر سکتے ہیں۔ یونہی اس کے اندر ایک ارتقائی مطمح نظر پیدا ہو گا۔ ہندوستان میں البتہ یہ امر کچھ ایسا آسان نہیں کیونکہ ایک غیر مسلم مجلس کو اجتہاد کا حق دینا شاید کسی طرح ممکن نہ ہو۔ ‘‘[1] اقبال مرحوم کی مندرجہ بالا عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی تصور ’اجماع‘ سے بھی ناواقف تھے۔ ’اجماع‘درحقیقت مجتہدین کے اتفاق کو کہتے ہیں نہ کہ جہلاء کے۔ اور یہ بات تو أظہر من الشمش ہے کہ عالمی جمہوری نظام میں انتخاب کے طریقے سے مجتہدین پارلیمنٹ میں نہیں آتے بلکہ سیاستدان آتے ہیں اورپاکستان سمیت اکثر و بیشتر ممالک میں پارلیمنٹ یا أسمبلی کا ممبر بننے کے لیے کوئی تعلیمی معیار مقرر نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی پرویز مشرف کے دور میں پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے جب بی۔ اے پاس ہونے کی شرط لگائی گئی توسیاستدانوں نے جعلی ڈگریاں بنوا لیں۔ اس لیے اگر کوئی برائے نام معیار مقرر کر بھی لیا جائے تو پھر بھی مغربی جمہوری نظام کی صورت میں وہیں لوگ اسمبلیوں میں آئیں گے جو جاگیردار ‘گدی نشین اور مل أونرز(Mil Owners)ہیں یا لسانی‘ قبائلی ‘ علاقائی اور سیاسی تعصب کی بنیاد پر قائم کرپٹ(Corrupt)جماعتیں ہی اس نظام سیاست میں زندہ رہ سکتیں ہیں۔ کسی متقی ‘ پرہیز گار عالم دین ‘ فقیہ یا مجتہد کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے تقوی اور للہیت کے باوصف انتخابی طریقے سے پارلیمنٹ کا رکن بن سکے۔ اسلام میں کن لوگوں کا اجماع معتبر ہے یا اجماع سے مراد کن افراد کا اجماع ہوتا ہے؟ اس بارے ہم اس باب کی آخری فصل میں تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم کے اس نظریے پر سب سے بڑا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں کے ملک میں اجتہاد کا اختیار پارلیمنٹ کو دے دیاجائے تو پارلیمنٹ میں عموماً عوام الناس کے جو نمائندہ ہوتے ہیں وہ اجتہادی صلاحیت تو کجا‘ دین کی بنیادی تعلیمات سے بھی ناواقف ہوتے ہیں لہذا ان سے اجتہاد کی توقع کرناایک بے کار خیال ہے۔ اقبال مرحوم نے خود بھی اس سوال کی نزاکت کو محسوس کر لیا تھا۔ انہوں نے اپنے خطبے میں اس سوال کو اٹھایا تو ہے لیکن اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم فرماتے ہیں : '' One more question may be asked as to the legislative activity of a modern Muslim assembly which must consist' at least for the present' mostly of men possessing no knowledge of the subtleties of Muhammadan Law. Such an assembly may make grave mistakes in their interpretaion of law. How can we exclude or at least reduce the possibilities of erroneous interpretation? The persian constitution of 1906 provided a separate ecclesiastical committee of Ulema- 'conversant with the affairs of the world'- having power to supervise the legislative activity of the Mejliss.This' in my opinion' dangerrous arrangement is probably necessary in view of the Persian constitutional theory...But whatever may be the persian constitutional' the arrangement is not free from danger' and may be tried' if at all' only as a temporary measure in Sunni countries. The Ulema should form a vital part of a Muslim legislative assembly helping and guiding free discussion on questions relating to law. The only effective remedy for the possibilities of erroneous interpretations is to reform the present system of legal education in Muhammadan countries' to extend its sphere' and to combine it with an intelligent study of modren jurisprudence.''[2] ’’لیکن ابھی ایک اور سوال ہے جو اس سلسلے میں کیاجا سکتا ہے اور وہ یہ کہ موجودہ زمانے میں تو جہاں کہیں مسلمانوں کی کوئی قانون ساز مجلس قائم ہو گی اس کے ارکان زیادہ تر وہی لوگ ہوں گے جو فقہ اسلامی کی نزاکتوں سے ناواقف ہیں۔ لہذا اس کا طریق کار کیا ہو گاکیونکہ اس قسم کی مجالس‘ شریعت کی تعبیر میں بڑی بڑی شدید غلطیاں کر سکتی ہیں۔ ان غلطیوں کے ازالے یا کم سے کم امکان کی صورت کیاہو گی؟۱۹۰۶ء کے ایرانی دستور میں تو اس امر کی گنجائش رکھ لی گئی ہے کہ جہاں تک امور دینی کا تعلق ہے ‘ ایسے علماء کی جو معاملات دنیوی سے بھی خوب واقف ہیں ایک الگ مجلس قائم کر دی جائے تا کہ وہ مجلس کی سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ یہ چیز بجائے خود بڑی خطرناک ہے‘ لیکن
Flag Counter