Maktaba Wahhabi

474 - 368
فصل سوم مجمع البحوث الإسلامیۃ، القاہرۃ بنو أمیہ کے بعد جب ١٣٢ھ میں بنو عباس نے اپنی خلافت کی بنیاد رکھی تو فاطمیوں نے یہ دعوی قائم کیا کہ وہ بنوعباس سے زیادہ خلافت کے حقدار ہیں۔ بنوعباس نے فاطمیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ بنو عباس اور فاطمیوں کی اس باہمی کشمکش کے نتیجے میں ٢٩٧ھ میں عبید اللہ المھدی کی حکومت قائم ہو گئی۔ ١١ شعبان ٣٨٥ھ میں فاطمی خلیفہ معز لدین اللہ نے مصر فتح کیا اور وہاں 'قاہرہ' کے نام سے ایک نئے شہر کی بنیاد رکھوائی۔ فاطمی خلیفہ کی طرف سے اس نئے شہر میں ٢٤ جمادی الأولی ٣٥٩ھ کو ایک مسجد کی بنیاد رکھی گئی تاکہ اسے ایک درس گاہ کی صورت میں استعمال کرتے ہوئے عوام الناس کو فاطمی مذہب کی تعلیمات سے آگاہ کیا جاسکے۔ اس مسجد میں ٧ رمضان ٣٦١ھ میں پہلی دفعہ نماز پڑھی گئی اور اس کو 'جامع القاھرۃ' کا نام دیا گیا۔ نویں صدی ہجری تک اس مسجد کا غالب نام یہی رہا پھر یہ مسجد 'الجامع الأزھر' یا 'جامع الأزھر' کے نام سے معروف ہو گئی کیونکہ اس مسجد کے گردا گرد پھولوں کے باغات کثرت سے تھے۔ ٥٦٧ھ میں صلاح الدین أیوبی نے مصر پر قبضے کے بعد جامعہ الأزہر کو شیعیت سے سنیت کے رستے پر ڈال دیا اور جامعہ میں مسالک أربعہ کی تعلیمات کا سلسلہ جاری کیا۔ 'جامعۃ الأزھر' کی ابتدا ٧ رمضان ٣٦١ھ میں ہوئی اور ٧ رمضان ١٣٦١ھ مؤرخہ ١٨ ستمبر ١٩٤٢ء میں اس کو ایک ہزار سال مکمل ہو گئے۔ جامعہ الازہر میں فتوی نویسی کا کام بالکل نہیں تھا۔ اس کی ابتداء ١٨٨٥ء میں ہوئی۔ ڈاکٹر تاج الدین أزہری حفظہ اللہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’ ٧ جمادی الثانی ١٣٠٥ھ مطابق ٢١نومبر ١٨٨٥ء سے أزہری فتاوی کو باقاعدہ لکھنے کا آغاز ہوا۔ اس وقت کے شیخ الأزہر الشیخ حسونہ نواوی کے فتاوی کو باقاعدہ ضبط تحریر میں لایا گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد ٢٤ محرم الحرام ١٣١٧ھ مطابق ٣ جون ١٨٩٩ء کو الشیخ محمد عبدہ ' کا تقرر بحیثیت مفتی عمل میں آیا۔ اس وقت سے اب تک باقاعدہ مفتی مصر کا تقرر کیا جاتا ہے۔ ‘‘[1] پھر ایک ایسا دور بھی آیا جبکہ جامعہ الأزہر میں فتوی جاری کرنے کے لیے علماء کی ایک جماعت یا کمیٹی تشکیل دی گئی اور اجتماعی فتوی کا رجحان قائم ہوا۔ 'مجمع البحوث'کے قیام سے پہلے تک کئی ایک اجتماعی ادارے بنائے گئے جو مختلف ناموں سے معروف ہوئے۔ ذیل میں ہم ان کا ایک مختصر تعارف نقل کر رہے ہیں۔ ہیئۃ کبار العلماء ١٩١١ء کے لگ بھگ جامعہ الأزہر کے تحت ہیئۃ کبار العلماءکے نام سے ایک علماء کی ایک مجلس تشکیل دی گئی' جس کاکام دینی مسائل میں عوام الناس کی رہنمائی کرنا تھا۔ ڈاکٹر تاج الدین أزہری حفظہ اللہ اس مجلس کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں : '' ١٩١١ء میں الأزہر میں ہیئۃ کبار العلماء کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے سربراہ الشیخ سلیم بشری تھے اور تیس بڑے بڑے علماء اس کے رکن تھے۔ ان میں سے ہر ایک علوم اسلامیہ کے کسی نہ کسی شعبے میں متخصص تھا۔ ان کا کام جہاں الأزہر کے اندر اسلامی علوم کی تدریس تھا' وہیں دینی مسائل میں لوگوں کی رہنمائی کرنا بھی تھا۔ اس کمیٹی کا رکن بننے کے لیے درج ذیل شرائط مقرر کی گئی تھیں : ١۔ رکن کی عمر ٤٥ سال سے کم نہ ہو۔ ٢۔ وہ الأزہر کے اندر دس سال تک علوم اسلامیہ کی تدریس سے وابستہ رہا ہو اور اس نے مذکورہ عرصے میں کم از کم چار سال درجہ عالیہ کی تدریس میں گزارے ہوں۔ ٣۔ علوم اسلامیہ کے کسی نہ کسی فن میں اس کی کوئی تصنیف ہو' یا پھر ا س کی علمی خدمات کے اعتراف میں اسے کسی ایوارڈ سے نوازا گیا ہو۔ ٤۔ وہ صاحب تقوی ہو اور بے داغ کردار کا مالک ہو۔ ‘‘[2]
Flag Counter