Maktaba Wahhabi

483 - 368
أعضائہ.''[1] ’’ مجمع المجلس کا عمومی اجلاس مہینے میں کم از کم ایک بار ہوتا ہے اور اس کا اجتماع اس وقت تک صحیح نہ ہو گاجب تک اس کے اکثر اراکین حاضر نہ ہوں۔ ‘‘ اس کے برعکس مؤتمر المجمع کا عمومی اجلاس سال میں ایک دفعہ ہوتا ہے اور تقریباً چار ہفتوں تک جاری رہتا ہے۔ ڈاکٹر شعبان محمد اسماعیل حفظہ اللہ آرٹیکل ٢٢ کے تحت لکھتے ہیں : '' یجتمع مؤتمر المجمع اجتماعاً عادیاً مرۃ فی کل سنۃ وتستمر دورۃ اجتماعہ أربعۃ أسابیع للنظر فی جدول أعمال السنۃ ویجوز أن یدعی المؤتمر إلی اجتماع غیر عادی إذا اقتضت الظروف ذلک بموافقۃ وزیر المختص وبناء علی اقتراح شیخ الأزھر ویکون اجتماع المؤتمر صحیحاً حالتین بحضور أکثریۃ أعضائہ بشرط أن یکون بینھم ربع الأعضاء غیر المواطنین علی الأقل.''[2] ’’مؤتمر المجمع کا عمومی اجلاس سال میں ایک دفعہ ہو گااور اس کا یہ اجلاس تقریباً چار ہفتوں تک جاری رہے گا تا کہ سال بھر کے کاموں کے جدول پر غور ہو سکے۔ یہ بھی جائز ہے کہ اس عمومی اجلاس کے علاوہ بھی مؤتمر، شیخ الأزہر کی تجویز اور متعلقہ وزیر کی موافقت پر اپنا اجلاس سال بھر میں کسی وقت بھی بلوا لے جبکہ حالات اس کے متقاضی ہوں۔ مؤتمر کے یہ دونوں قسم کے اجتماعات اس وقت صحیح متصور ہوں گے جبکہ اس کے اکثر اراکین حاضر ہوں اور یہ بھی کہ غیر ملکی اراکین کی کم ازکم ایک چوتھائی تعداد موجود ہو۔ ‘‘ مراسلاتی اور اعزازی اراکین کوبھی مجمع کے اجلاسات میں شرکت کی اجازت ہوتی ہے۔ اس بارے آرٹیکل ٢٩ کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر شعبان محمد اسماعیل حفظہ اللہ لکھتے ہیں : '' یجوز دعوۃ الأعضاء المراسلین والأعضاء الفخریین إلی جلسات المجمع بموافقۃ الوزیر المختص بناء علی قرار مجلس المجمع.''[3] ’’مجلس المجمع کی قرارداد اور متعلقہ وزیر کی موافقت سے مراسلاتی اور اعزازی اراکین کو بھی مجمع کے اجلاسات میں دعوت دی جا سکتی ہے۔ ‘‘ مجمع کا منہج و طریق کار جیسا کہ ہم مجمع کی فتوی کمیٹی کے ذیل میں بیان کر چکے ہیں کہ أزہری علماء کے فتوی کا منہج و طریق کار کسی خاص فقہی مذہب کی پابندیوں میں محصور نہیں ہے بلکہ یہ حضرات تمام فقہی مذاہب سے بغیر کسی گروہی منافرت و تعصب کے استفادہ کرتے ہیں۔ مجمع البحوث کا فتوی دینے کا بھی طریق کار اور منہج وہی ہے جو فتوی کمیٹی کے عنوان کے تحت بیان ہو چکا ہے۔ مجمع کی پہلی کانفرنس جومارچ١٩٦٤ء بمطابق شوال ١٣٨٣ھ میں منعقد ہوئی،اس اجلاس میں مجمع کا علمی منہج تین درجات میں بیان کیا گیاہے۔ پہلا درجہ تو یہ ہے کہ مجمع ممکن حد تک اپنے فتاوی میں سابقہ جمیع فقہی مذاہب سے استفادہ کرے گی اور اس میں کسی خاص فقہ کی پابند نہیں ہوگی۔ اگر سابقہ جمیع فقہی مذاہب کے اقوال میں موجودہ مسائل کی کما حقہ رہنمائی نہ ہو تو پھر سابقہ فقہی مذاہب کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اجتہاد کرے گی اور اگرسابقہ فقہی مذاہب کے اصولوں سے بھی اس مسئلے میں مناسب رہنمائی أخذ کرنا ممکن نہ ہو تو مجمع مطلق اجتماعی اجتہا دکرے گی۔ ڈاکٹر شعبان محمد اسماعیل حفظہ اللہ اس قرارداد کے الفاظ کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
Flag Counter