عسقلانی رحمہ اللہ کی رائے بھی یہی ہے کہ شوری کا وجود ایک واجب حکم ہے۔ حنفیہ کا مذہب بھی یہی ہے جیسا کہ امام جصاص رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ’و أمرھم شوری بینھم‘ کے ذیل میں کہا ہے کہ یہ آیت مبارکہ مشورہ کی عظمت کو اس اعتبار سے واضح کر رہی ہے کہ اس میں ایمان اور اقامت نماز کے ساتھ اس کا حکم جاری فرمایا ہے۔ اسی طرح یہ آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ہم بھی شوری کے حکم کے مامور ہیں۔ اسی رائے کو امام رازی رحمہ اللہ نے بھی اختیار کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :ظاہرعبارت کا تقاضا یہ ہے کہ’ و شاورھم فی الأمر‘ میں فعل أمر وجوب کے لیے ہے اور وأمر وجوب ہی کا متقاضی ہوتا ہے۔ ‘‘
سنت میں اجتماعی اجتہاد بذریعہ شوری
سنت میں بھی کثرت سے ہمیں ایسی روایات ملتی ہیں جن کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر معاملات میں اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ اس بارے میں حضرت أبوہریرۃ رضی اللہ عنہ کا ایک قول بہت معروف ہے جسے کئی ایک محدثین نے نقل کیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں :
عن ابن شھاب عن أبی ہریرۃ قال: مارأیت أحدا أکثر مشورۃ لأصحابہ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ ‘‘[1]
’’حضرت ابن شہاب زہری رحمہ اللہ حضرت أبوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرتے نہیں دیکھا۔ ‘‘
حضرت أبو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور کچھ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم ایسے بھی تھے کہ جن سے آپ مستقل طور پر مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ اپنے اس طرز عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے ایک سنت جاری فرما رہے تھے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں :
’’ عن سعید بن المسیب قال: کان أبو بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ من النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکان الوزیر فکان یشاورہ فی جمیع الأمور۔ ‘‘[2]
’’حضرت سعید بن مسیب سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: حضرت أبوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشیر کے مقام پر فائز تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً تمام معاملات میں ان سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ ‘‘
اس طرح کی اور بہت سی روایات سے معلوم ہوتاہے کہ مشورہ کا عمل انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطحوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں غالب و نمایاں تھا۔
خلفائے راشدین کے دور میں اجتماعی اجتہاد بذریعہ شوری
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اکثر و بیشتر شورائی مجالس کا موضوع امور سلطنت و حرب ہوتا تھا جبکہ خلفائے راشدین کے دور میں تشکیل پانے والی شوری کے اکثر اجتہادات کی نوعیت فقہی تھی۔ امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’عن المسیب بن رافع قال: کانوا إذا نزلت بھم قضیۃ لیس فیھا من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أثر‘ اجتمعوا لھا وأجمعوا‘ فالحق فیما رأوا‘ فالحق فیما رأوا۔ ‘‘[3]
’’ مسیب بن رافع سے منقول ہے: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب کوئی ایسا مسئلہ درپیش آتاتھا کہ جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اثر موجود نہ ہوتا تھا تو وہ اس کے لیے اکھٹے ہو کر مشورہ کرتے اور ایک رائے پراتفاق کرلیتے تھے۔ پس حق وہی ہے جو انہوں نے سمجھاہے۔ پس حق وہی ہے جو انہوں نے سمجھاہے۔ ‘‘
|