Maktaba Wahhabi

460 - 368
فصل دوم اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان میں آئین سازی کی تاریخ بہت ہی مخدوش رہی ہے۔ اسلامی تحریکوں اور علماء کی کاوشوں کے نتیجے میں مارچ ١٩٤٩ء میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے وزیراعظم لیاقت علی خان صاحب کی قیادت میں ایک قرارداد مقاصد منظور کی۔ اس قرارداد کا مقصود یہ تھا کہ پاکستان کا آئین بناتے وقت اسے رہنما اصول کے طور پر سامنے رکھا جائے۔ اس قرارداد میں یہ طے کیا گیا تھا کہ پاکستان کا آئین ایسا بنایا جائے گا ' جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایسا ماحول اور قانون فراہم کیا جائے کہ جس کی روشنی میں مسلمانان پاکستان کے لیے اسلام کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے میں آسانی و سہولت ہو۔ اس قرارداد میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ساری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے عوام اپنے اختیار و اقتدار کو اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کریں گے اور وہ اختیار و اقتدار ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایک امانت متصور ہو گا۔ ١٩٥٦ء میں پاکستان کا پہلا باقاعدہ آئین مرتب کیا گیا اور قرارداد پاکستان کو اس آئین کی تمہید کا درجہ حاصل تھا۔ بعد میں ١٩٨٥ء میں اس قرارداد کو آئین کے آرٹیکل ٢ الف کے طور پر باقاعدہ دستور کا حصہ بنا دیا گیا۔ ١٩٥٦ء کے آئین میں قرارداد مقاصد کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل ١٩٨(١)میں یہ طے کیا گیا کہ اس ملک میں ایسا کوئی بھی قانون نہیں بنایا جائے گا جو قرآن و سنت کے منافی ہو اور سابقہ قوانین میں اگر کوئی غیر اسلامی قانون ہے تو اس کو اسلام کے مطابق کیا جائے گا۔ اسی آرٹیکل ١٩٨ کی ذیلی شق(٣)میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’جناب صدر دستور کے نفاذ کے دن سے ایک سال کے اندر ایک کمیشن مقرر کریں گے۔ الف۔ کہ وہ سفارشات پیش کرے۔ موجودہ قوانین کو احکام اسلام کے مطابق بنانے کے لیے اقدامات کے بارے میں ' ٪ ان مراحل سے متعلق جن میں ایسے اقدامات نافذ العمل کیے جائیں ؛ اور ب۔ کہ وہ قومی اور صوبائی مجالس مقننہ کی راہنمائی کی غرض سے احکام اسلام ایسی موزوں شکل میں مدون کرے جس میں انھیں قانونی شکل دی جا سکے۔ ‘‘ [1] اسلامی نظریہ کی مشاورتی کونسل کا قیام ١٩٥٨ء میں جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور مارشل لگا دیا۔ ١٩٥٦ء کا آئین منسوخ ہو گیا۔ ١٩٦٢ء میں ایک نیا آئین مرتب کیا گیا۔ اس آئین میں آرٹیکل ١٩٩ کے تحت 'اسلامی نظریہ کی مشاورتی کونسل' کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل ٢٠٤(١)کے تحت اس کونسل کے درج ذیل فرائض منصبی طے پائے: ’’مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو ایسی سفارشات کرنا جن کے ذریعے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں ہر لحاظ سے اسلامی نظریات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنایا جا سکے' نیز اس کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی جاسکے اور دستور کی پہلی ترمیم کے قانون ١٩٦٣ء کے نافذ ہونے سے فورا پہلے نافذ العمل تمام قوانین کا جائزہ لینا تاکہ انہیں قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی تعلیمات او ر تقاضوں کے مطابق بنایا جائے۔ ‘‘ [2] بعد أزاں اس ادارے کو 'اسلامی نظریاتی کونسل' کا نام دے دیا گیا۔
Flag Counter