نکاد نعثر علی أی خلاف بینھم فی أن ھاتین الصفتین‘ ھما قوام أھلیۃ الشوری۔ ‘‘[1]
’’سلف کی جو آراء ہم نے ذکر کی ہیں ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جن کو وہ مشورہ کے لیے تلاش کرتے تھے ‘ ان کی صفات کا خلاصہ علم و عدالت ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ ۔ ۔ اسی طرح جب ہم اس مسئلے میں علمائے شریعت کے اقوال کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں ان دو صفات کے بارے میں اس حوالے سے کوئی اختلاف معلوم نہیں ہوتاکہ یہی دو صفات شوری کی اہلیت کی اصل بنیاد ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر رمضان البوطی حفظہ اللہ نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ علم سے مراد صرف فقہی علم نہیں ہے‘ بلکہ اس سے مراد دینی اور دنیاوی دونوں قسم کے علوم ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ ولیس المراد بالعلم المشترط ھھنا‘ معناہ الفقھی الضیق‘ وإنما المراد بہ عموم ما یتوقف علی معرفتہ مصلحۃ المسلمین‘ فتدخل فیہ الخبرات المتنوعۃ‘والملکۃ الفقھیۃ العامۃ‘ والتبصر بمعانی کتاب اللّٰہ وسنۃ رسولہ‘ إذ لا تنھض مصالح المجتمع الإسلامی‘ إلا علی حقیقۃ علمیۃ تتسع لھذہ الجوانب کلھا‘ والأصل أن یرقی ھؤلاء العلماء إلی درجۃ الاجتھاد فی کل ذلک۔ ‘‘[2]
’’یہاں پر علم کی شرط سے مراد صرف فقہی معنوں میں علم نہیں ہے بلکہ اس سے مرادوہ عمومی علم ہے کہ جس پر مسلمانوں کی مصلحت کی معرفت متوقف ہو۔ پس اس علم میں متنوع اطلاعات‘ عمومی فقہی ملکہ اورکتاب و سنت میں گہرا غور و فکرشامل ہے۔ کیونکہ کسی بھی اسلامی معاشرے کی مصالح اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتیں جب تک کہ ان تمام پہلوؤں کاحقیقی علمی احاطہ نہ ہو۔ پس أصل بات یہی ہے کہ ان تمام امور میں علماء درجہ اجتہاد پر فائز ہوں۔ ‘‘
دوسری قسم کی شوری کی تفصیل ہم اگلی فصل میں کریں گے کیونکہ اُس فصل کا موضوع ہی یہی ہے۔
شوری کا دائرہ کار
شوری کی مشاورت کا دائرہ کار صرف دنیاوی و انتظامی امور ہیں یامجلس شوری دینی امور کوبھی موضوع بحث بنا سکتی ہے‘ اس مسئلے میں علماء کے دو قول ہیں۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ ان اقوال کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ یری نفر من العلماء کالطبری وابن العربی أن الشوری لا تکون إلا فی الأمور الدنیویۃ کالحروب۔ ویری العلماء الآخرون کالآلوسی والجصاص أن الشوری تکون فی الأمور الدنیویۃ‘ وکذلک الأمور الدینیۃ التی لا وحی فیھا‘ لأن الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم شاور المسلمین فی أساری بدر‘ وھو أمر من أمور الدین والظاہر ھو الرأی الثانی‘ لأن الأمر المطلق بالمشاورۃ فی آیۃ﴿ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ﴾ الموجہ للحکام یشمل کل القضایا الدینیۃ والدنیویۃ: السیاسیۃ والاجتماعیۃ والاقتصادیۃ والثقافیۃ التظیمیۃ‘ أی فیما لم یرد لہ نص تشریعی واضح الدلالۃ۔ ‘‘[3]
’’علماء کی ایک جماعت مثلاً امام طبری رحمہ اللہ اور ابن العربی رحمہ اللہ وغیرہ کا خیال ہے کہ شوری صرف دنیوی امور مثلاً جنگی معاملات میں ہی منعقد ہوگی۔ جبکہ علماء کے دوسرے گروہ مثلاً علامہ آلوسی رحمہ اللہ اور جصاص رحمہ اللہ وغیرہ کا کہناہے کہ شوری دنیوی کے ساتھ ان دینی امور میں بھی ہو گی کہ جن میں کوئی وحی نہ نازل ہوئی ہو۔ کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا تھا اور یہ ایک دینی معاملہ تھا۔ ہمارے نزدیک دوسری رائے راجح ہے کیونکہ آیت مبارکہ’ و شاورھم فی الأمر‘ میں بھی مطلق مشاورت کا حکم ہے جو حکام کو دینی‘ دنیوی‘ سیاسی‘ اجتماعی‘ اقتصادی‘ ثقافتی اور انتظامی وغیرہ جیسے ان تمام مسائل میں مشورے کی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ
|