معیار اخلاق مقرر ہوتا کہ وہ قومی نمائندے اہل عدالت اور اہل رائے کی شرط پوری کر سکیں۔ ‘‘[1]
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے بقول یہ دونوں ایوان‘ اجتہاد کے ذریعے ریاست کے آئین و قانون کی تشکیل و توضیح کا فریضہ سرانجام دیں گے اور اس مقصد کے حصول کی خاطران افرادسے بھی رہنمائی لے سکتے ہیں جو شوری کے ممبر نہ ہوں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’یہ دونوں ایوان باہمی مشاورت سے آئین قوانین ریاست کی تشکیل و توضیح کے لیے اجتہاد کریں۔ ان کا یہ اجتماعی اجتہاد بہر صورت: ۱۔ قرآن وسنت کا پابند ہو اور اجماع ما سبق کی روشنی میں واقع ہو۔ ۲۔ ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے اکثریتی فقہی مذہب کے بنیادی ڈھانچے کے مطابق ہو مگر حسب ضرورت دوسرے فقہی مذاہب کو بھی جگہ دی جا سکے۔ ۳۔ اگر یہ دو ایوانی مقننہ یا مجلس شوری ضرورت محسوس کرے تو اہل علم و فکر کی کسی اور وقیع مجلس مثلاً: Islamic Ideology Council یادیگر ماہرین()وغیرہ سے علمی و فنی مشورہ طلب کر سکے۔ مذکورہ بالا طریقے پر اہل علم و فکر کی بھرپور مشاورت کے نتیجے میں جو ’’اجتماعی اجتہاد‘‘ وجود میں آئے گا‘ اسی کو اسلامی ریاست میں قانون کا درجہ حاصل ہو گا۔ یہی مجلس شوری اسلامی ریاست کی پارلیمنٹ()یا نیشنل اسمبلی اور سینٹ وغیرہ کہلائے گی۔ ‘‘[2]
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اپنے شوری کے تصور میں پارلیمنٹ کو شورائے عام کا نام دے دیا ہے حالانکہ پارلیمنٹ اور شوری کے تصور میں بہت نمایاں فرق موجود ہیں جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے بقول جس پارلیمنٹ کو اجتہاد کا وظیفہ عنایت کیا جائے گا اس کے ممبران کے لیے کم از کم معیار علم اور معیار اخلاق مقرر ہونا چاہیے۔ اس تجویز میں یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ کم از کم معیار علم کے حصول کے بعد کیا کسی شخص کے لیے اجتہاد کرنا جائز ہو جاتا ہے۔ جب ایک شخص انفرادی حیثیت میں کم ازکم علم کے حصول کے بعد مجتہد قرار نہیں پاتا تو ایسے افراد پر مشتمل پارلیمنٹ کیسے مجتہد قرار پائے گی؟۔ اگر یہ پارلیمنٹ مجتہد نہیں ہو گی تو ایک غیر مجتہد اجتہاد کا وظیفہ کیسے سر انجام دیتا ہے۔ کیا ہر عالم دین یا آٹھ سالہ درس نظامی پاس طالب علم مجتہد ہوتاہے؟۔ یقیناً اس سوال کا جواب نفی میں ہے توپھرپارلیمنٹ کو مجتہد قرار دینے کے لیے اس کے ممبران کے لیے کم ازکم معیار علم کی شرط لگانے کا کیا معنی باقی رہ جاتا ہے؟۔
شوری کی رائے کا التزام
اس بحث کے ذیل میں ہم دو اہم مسائل کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ پہلا مسئلہ جوعلماء کے مابین اختلافی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ کسی مسئلے میں شوری سے رائے لینا حکمران پر لازم ہے یانہیں یا دوسرے الفاظ میں کیا حاکم وقت یا خلیفہ کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ شوری کے ہوتے ہوئے بھی ان سے رائے لیے بغیر کسی اہم ملکی مسئلے میں کوئی ذاتی فیصلہ جاری فرمادے۔ اس بارے میں علماء کے دواقوال ہیں۔ ڈاکٹر محمد عبد القادر حفظہ اللہ اس اختلاف کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ المذھب الأول: الشوری واجبۃ علی الحاکم قبل أن یتخذ القرار۔ المذھب الثانی: الشوری مندوبۃ للحاکم ولیست واجبۃ علیہ۔ ‘‘[3]
’’پہلا مذہب تویہ ہے کہ کسی بھی قرارداد کے پاس ہونے سے پہلے شوری سے مشاورت حکمران پر واجب ہے جبکہ دوسرا مذہب یہ ہے کہ حاکم کے لیے شوری سے مشاورت مستحب ہے نہ کہ واجب۔ ‘‘
جمہور علماء کا موقف پہلا ہے۔ اس موقف کوامام ابن عطیہ ‘ ابن خویز منداد‘امام ابن العربی‘ امام جصاص حنفی‘امام نووی‘امام ابن تیمیہ‘شیخ محمد طاہر بن عاشور‘استاذ حسن البناء‘ استاذ مودودی‘ شیخ محمود شلتوت‘ شیخ محمد أبو زہرہ‘ شیخ عبد الوہاب خلاف‘ استاذ عبد القادر عودۃ رحمہم اللہ اورعبد الکریم
|