Maktaba Wahhabi

375 - 368
آنے والے حالات میں بھی باہمی مماثلت موجود نہیں۔ جو لوگ اسلامی ریاست کی فکری تشکیل میں علامہ کے نظریات کو دلیل بناکر انہیں مجتہد مستقل کا مقام دیناچاہتے ہیں ‘ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ اقبال کے یہ نظریات ان کی ٹھوس آراء کی بجائے ان کے ارتقائی نظریات تھے۔ چناچہ کائنات ارضی کے مختلف حصوں میں رونما ہونے والے واقعات پر غور و فکر کے نتیجے میں اقبال کے ان نظریات کو‘ جو فکر اقبال کے حاملین کو ان کے عقائد نظر آتے ہیں ‘ منزل تک پہنچنے سے قبل اس راہ کی بھول بھلیوں یا درمیانی مراحل کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ ‘‘[1] کیا ڈاکٹر اقبال نے پہلی دفعہ اجتماعی اجتہاد کا تصور پیش کیا؟ بعض ماہرین اقبالیات کا یہ دعوی ہے کہ ڈاکٹر اقبال نے پہلی دفعہ اپنے خطبہ اجتہاد میں اجتماعی اجتہاد کا تصورپیش کیا‘یہ بات درست نہیں ہے۔ ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ تاریخی واقعات کی روشنی میں ڈاکٹر اقبال کے خطبہ اجتہاد کی تالیف کا وقت بعض ماہرین اقبالیات کے نزدیک ۱۹۲۰ء ہے جبکہ بعض کے ہاں ۱۹۲۲ء یا ۱۹۲۴ء یا ۱۹۲۵ء ہے۔ بہر حال کسی کا بھی کہنا یہ نہیں ہے کہ ۱۹۲۰ء سے پہلے ہی ڈاکٹر اقبال نے یہ خطبہ لکھ لیا تھا۔ دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مصر میں ۱۹۱۱ء میں ہی حکومت مصر کی طرف سے اجتماعی اجتہاد کے لیے مذاہب أربعہ کے علماء پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی گئی تھی جو بعض عائلی قوانین‘ اجتماعی اجتہاد کے ذریعے مرتب کر رہی تھی۔ ان علماء کی کمیٹی کا ایک مسودہ قانون ۱۹۱۶ء میں مصر سے شائع بھی ہو چکا ہے جو ۱۹۱۷ء میں دوبارہ تنقیح و تہذیب کے بعد شائع ہوا تھا۔ پس علامہ اقبال کے بارے میں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اجتماعی اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ کا تصور سب سے پہلے پیش کیا لیکن تاریخی اعتبار سے یہ بات بالکل بھی درست نہیں ہے کہ ان کے خطبہ اجتہاد سے پہلے امت مسلمہ میں اجتماعی اجتہاد کا کوئی تصور ہی موجود نہ تھا۔ اقبال مرحوم اجتہاد کی ضرورت کے داعی تھے یا مجتہد مطلق ؟ بعض ماہرین اقبال کا یہ بھی خیال ہے کہ ڈاکٹر اقبال نے اجتہاد کی ضرورت و اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے نہ کہ خود کو مجتہد قرار دیا ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں ماہرین اقبال کا یہ دعوی واقعہ کے خلاف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈاکٹر اقبال نے مطلق اجتہاد کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خطبہ اجتہاد میں وہ ہمیں اس وقت ایک مجتہد مطلق کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں ‘ جب وہ کسی نص کے فہم پر امت کے اجماع کی حجیت کاانکار کرتے ہیں یا وہ قرآن کی ابدی سزاؤں کو عربوں کے مزاج اور مخصوص تمدنی حالات کے ساتھ خاص کرتے نظر آتے ہیں۔ کئی ایک ماہرین اقبالیات نے ڈاکٹر اقبال کے ان اجتہادات کی فہرستیں مرتب کی ہیں۔ جناب محمد ظفر اقبال لکھتے ہیں : ’’آج ماہرین اقبال یہ کہہ رہے ہیں کہ اقبال نے اجتہاد کی ضرورت کا دعویٰ کیا ہے لیکن خود مجتہد بننے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ ہم اس بیان سے اتفاق کے باوجود اپنے ان کرم فرمائوں کو دعوت دیتے ہیں کہ اقبال کے ’’اجتہادات‘‘ ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کی کتاب ’’اقبال کا تصورِ اجتہاد‘‘ کے چھٹے باب میں بہ عنوان ’’اجتہاداتِ اقبال‘‘ ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ اگر اس کے جواب میں مجھ سے یہ کہا جائے کہ یہ اقبال کا ’’اجتہاد‘‘ نہیں بلکہ ان کی ’’رائے‘‘ ہے تو پھر ہم ادب سے عرض کریں گے کہ آپ حضرات کے خامۂ گوہر بار کو اس وقت جنبش کیوں نہ ہوئی جب ڈاکٹر خالد مسعود صاحب اور ڈاکٹر محمد یوسف گورایہ صاحب [جو اقبال کو ’’مجتہد مطلق‘‘ باور کراتے ہیں ] اقبال کی مختلف آراء کو ’’اجتہاداتِ اقبال‘‘ کے نام سے شائع فرما رہے تھے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس وقت ’’وضاحتی مضمون‘‘ شائع کر دیا جاتا۔ اگر کسی کے مقام کو اس کی اصل حیثیت سے گرانا غلط بات ہے تو مداح سرائی میں غلو و افراط بھی قابلِ تردید و مذمت ہے۔ ‘‘[2] ڈاکٹر یوسف گورایہ کا نظریہ اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ ڈاکٹر اقبال کے اس فلسفے کو کئی ایک متجددین نے ایک نظام فکر کے طور پر پیش کیا۔ ڈاکٹریوسف گورایہ کے نقطہ نظر کے مطابق علوم شرعیہ سے
Flag Counter